Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

464 - 756
	قتال میں عورت اور اپاہج اور شیخ فانی اور اندھے کا قتل باوجود ان کے بقاء علی الکفر کے جائز نہیں۔ اگر سیف اکراہ علی الاسلام کیے ہوتی تو ان کو ان کی حالت پر کیسے چھوڑا جاتا ہے۔ 
(۲)
	جزیہ مشروع کیا گیا اگر سیف جزاء کفر ہوتی تو باوجود بقاء علی الکفر کے جزیہ یہ کیسے مشروع ہوتا۔ 
(۳)
	پھر جزیہ بھی سب کفار پر نہیں چنانچہ عورت پر نہیں، اپاہج اور نابینا پر نہیں، رہبان پر نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مثل سیف کیجزیہ بھی جزاء کفر نہیں ورنہ سب کفار کو عام ہوتا جب جزیہ کہ سیف سے اخف ہے جزئے کفر نہیں تو سیف جو کہ اشد ہے کیسے جزاء کفر ہوگی۔ 
(۴)
	اگر کسی وقت مسلمانوں کی م صلحت ہو تو کفار سے صلح بلا شرط مال بھی جائز ہے ۔ 
(۵)
	 اگر حالات وقتیہ مقتضی ہوں تو خود مال دے کر بھی صلح جائز ہے ان اخیر کی دونوں دفعات سے معلوم ہوا کہ جزیہ جس طرح جزائے کفر نہیں جیسا دفعہ نمبر ۳ سے معلوم ہوا اسی طرح وہ مقصود بالذات  بھی نہیں ورنہ صلح بلا مال یا بہ بذل مال جائز نہ ہوتی۔ پس جب سیف یا جزیہ نہ جزاء کفر ہیں نہ مقصود بالذات ورنہ دفعات مذکورہ مشروع نہ ہوتے تو ضرور اس کی کوئی ایسی علت ہے جو اندفعات کے ساتھ جمع ہو سکتے ہیں اور وہ حسبِ تصریح حکماء امت (کما فی الہدایۃ وغیرہا) ۔ سیف کی غرض اعزاز دین ودفع فساد ہے اور جزیہ کی غرض یہ ہے کہ جب ہم ہر طرح ان کی حفاظ کرتے ہیں اور اس حفاظت میں اپنی جان ومال صرف کرتیء ہیں تو اس کا صلہ یہ تھا کہ وہ بھی حاجت کے وقت ہماری نصرت بالنفس بھی کرتے مگر ہم نے ان کو قانوناً اس سے بھی سبکدوش کر دیا اس لئے کم از کم ان کو کچھ مختصر ٹیکس ہی ادا کرنا چاہئے تاکہ یہ نصرت بالمال اس نصرت بالنفس کا من وجہ بدل ہو جائے یہ اغراض ہیں سیف اور جزیہ کے اور یہی وجہ ہیکہ جب اعداد  دین سے احتمال فساد کا نہیں رہتا سیف مرتفع ہوجاتی ہے جس کے تحقق کی ایک صورت قبول جزیہ ہے ایک صورت صلح ہے اور یہی وجہ ہے کہ جو لوگ نصرت بالنفس پر جو کہ ان پر عقلاً واجب تھی قادر نہیں ان سے نصرت بالمال بھی معاف کر دی گئی ہے البتہ چونکہ احتمال فساد کا موثوق بہ انتفاء عادۃ موقوف ہے حکومت وسلطنت پر چنانچہ تمام ملوک وسلاطین کا گروہ اہل ملل بھی نہ ہوں یہ اجماعی مسئلہ ہے اس لئے ایسی کسی صورت کو بحالت اختیار گورار نہیں کیا گیا جس میں اسلام کو قوت وشوکت کو صدمہ پہنچے اس مختصر تقریر سے اصولی طور پر شبہ مذکورہ کا بالکلیہ قلع قمع ہو جاتا ہے اور اس کا وسوسہ بھی باقی نہیں رہتا کہ شمشیر اشاعت اسلام کے لئے وضع کی گئی ہے۔ الحمد للہ کہ اس اعتراض کا بالکلیہ استیصال ہوگیا۔ رہا مرتد کا قتل اسلام کی طرف عود نہ کرنے کی حالت میں سو اس کی حقیقت اکراہ علی قبول الاسلام نہیں ہے بلکہ اکراہ علی بقاء الاسلام بعد قبولہ ہے سو وہ ایک مستقل مسئلہ ہے جو مسئلہ مبحوث عنہا سے بالکل مغائر ہے اور اس کی بناء بھی وہی دفع فساد ہے جو اصل مسئلہ سیف کی بناء ہے اتنا فرق ہے کہ کفر قبل الاسلام کا شر اور ضرر اخف ہے اس لئے اس کا تدارک جزیہ یا صلح سے جائز رکھا گیا اور کفر بعد الاسلام یعنی ارتداد کا شر اور ضرر اغلظ ہے کہ ایسا شخص طبعا بھی زیادہ مخالف ومحارب ہوتا ہے اور دوسروں کو اس کی یہ حالت دیکھ کر حق میں تذبذب وتردد بھی ہو جاتا ہے(من قولہ تعالیٰ اٰمنوا بالذی انزل علی الذین 
Flag Counter