Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

463 - 756
ایسی مغلوبیت احیاناً بہت نصوص میں مذکور ہے 
نوٹ:
		 شاہ عبد القادر صاحب رحمہ اللہ کی اجامالی تفسیر کو بھی اسی تفصیلی تقریر پر محمول کرنا ضروری ہے۔
ضمیمہ ضمیمہ:
	اس تقریر کی تحریر کے بعد اپنے رسالہ المفتاح المعنوی میں اس مقام کا ایک حل نظر پڑا۔ تتمیم فائدہ کے لئے اس کو بھی نقل کرتا ہوں۔ اور تقریر سابق وتقریر لاحق میں فرق یہ ہے کہ سابق میں تو ہٰذا ربی کا مشار الیہ کو کب وغیرہ ہے اور مصرعہ چونکہ اندر عالم وہم اوفتاد اپنے ظاہر پر محمول ہے اور لاحق میں ہٰذا کا مشار الیہ حق جل شانہ ہے اور مصرعہ مذکورہ اپنے ظاہر سے منصرف ہے چنانچہ عنقریب معلوم ہوگا۔ وھو ھٰذا ۔ قولہ گفت ہٰذا ربی الخ ۔ یہ ایک تاویل کی طرف اشارہ ہے جس کو بعض صوفیہ نے تصریحاً فرمایا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو کوکبکو دیکھا تو اس میں تجلی حق کا مشاہدہ کیا اور اس مشاہدہ کو کہا ھٰذا ربی اور مظہرہ کو وہ پہلے سے بھی آفل سمجھتے تھے مگر دوسروں پر احتجاج کرنے کے لئے افول کے منتظر رہے افول کے وقت لا احب فرمایا چونکہ مظاہر عالم وہم سے ہیں اس لئے مولانا فرماتے ہیں   ع   چونکہ اندر عالم وہم وافتاد 	
	ورنہ انبیاء علیہم السلام کو مظاہر کے واسطہ کی ضرفورت ہی نہیں۔ ان کا علم ضروری ہوتا ہے اور ابراہیم علیہ السلام کا بھی ضروری تھا مگر بمصلحت احتجاج ایسا کیا اور چونکہ بشکل احتجاج نہ تھا اس لئے نادان کو اس سے ایہام ہو سکتا تھا جس کی بناء پر یہ بھی نظیر اقوال ثلاثہ کی ہوگیا۔ دوسرے شعر میں اسی تاویل کی نسبت فرمایا ہے۔ ذکر کوکب راالخ باقی اہلِ ظاہر کی تاویلات میں اقرب یہ ہے کہ بطور فرض کے فرمایا ہے۱ھ مافی المفتاح خلاصہ اس کا یہ ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام احتجاج کے لئے عالم وہم یعنی مظاھر میں (جو کہ واسطہ فی اثبات الصانع ہیں) واقع ہوئے نہ بایں معنی کہ گرفتار وہم ہوئے بلکہ بایں معنی کہ عالم وہم کی طرف متوجہ ہوئے جس کا سبب ضرورت احتجاج تھی گو اسی کے بعدلا احب الآفلین فرمادیا اور ھٰذا ربی اس کی نسبت نہیں فرمایا مگر اس سے نادان کو تو ایہام ہوگیا کہ دونوں قول ایک شئی کے متعلق ہیں جس سے یہ قول بھی نظیر فلعلہ کبیرھم، وانی سقیم ، وھٰذہ اختی کا ہوگیا اور جیسے وہ اقوال ثلاثہ ایہام ہی کے سبب ظاہراً آپ کی شان رفیع سے قدرے بعید تھے۔ ایسا ہی ایہام کے سبب یہ بھی بعید ہوگیا اسی کو مولانا ضرر وازجان کند وغیرہ کہہ رہے ہیں تو اس ضرر کا سبب عالم وہم میں واقع ہونا بالمعنی المذکور ہوا۔ تو عالم وہم ایسی چیز ہے کہ اتنے بڑے کو مضر ہوا۔ ۱۶ جمادی الاخری ۱۳۴۴؁ھ
رسالہ درجۃ الحسام من اشاعۃ الاسلام
(یعنی تقریظ بر رسالہ اشاعت اسلام مؤلفہ مولناحبیب الرحمن صاحب دیوبندی دام فیضہم) 
الجواب:
	بعد الحمد والصلوۃ۔ مخالفین اسلام کے اس شبہ کا کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا یا گیا ہے۔ اصولی جواب تو خود اسلام کے قانون سے ظاہر ہے جس کے بعد بعض ضروری دفعات یہ ہیں 
(۱)

Flag Counter