Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

462 - 756
فی الشرح الحبیبی:
	عالم وہم وخیال اور عالم نفس وطبع اور عالم خوف بے جا سالک کے لئے ایک زبردست رکاوٹ ہے کیونکہ قوتِ خیالیہ مصورہ کی بنائی ہوئی تصویریں خلیل اللہ جیسے شخص کے لئے جو کہ پہاڑ کی طرح غیر متزلزل تھے مضر ثابت ہوئی ہیں۔ چنانچہ جس وقت وہ عالم وہم میں پھنسے ہیں اور وہم کا ان پر غلبہ ہوا ہے اور عقل عارضی طور پر مغلوب ہوگئی ہے تو انہوں نے حق سبحانہ کو طلب کرتے ہوئے شمس وقمر اور دیگر ستارہ کی نسبت ہٰذا ربی کہ دیا جس کسی نے ھٰذا ربی کی توجیہ کی ہے اس نے اس کی یہی وجہ بیان کی ہے واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔ پس تم غور کرو کہ اس نظر بندی کرنے والئے عالم وہم وخیال نے ایسے غیر متزلزل پہاڑ کو اپنے مقر اصلی سے تھوڑی دیر کے لئے ہٹا دیا حتی کہ انہوں نے ایک ستارہ کی نسبت ہٰذا ربی کہ دیا پھر اس عالم میں غیر انبیاء کی کیا حالت ہوگی۔ اب احقر اشرف علی بعد نقل متن وشرح کے حاشیہ میں اس کی توضیح کرتا ہے یہ حاشیہ شرح کے اس قول پر ہے اس کی یہی وجہ بیان کی ہے۔ وھی ھٰذا 
	یعنی منجملہ ان توجیہات کے بعض نے یہ بھی ایک توجیہ بیان کی ہے چنانچہ ہمارے اکابر میں سے حضرت شاہ عبد القادر صاحب رحمہ اللہ نے اسی توجیہ کو اختیار کیا ہے اور اس سے یہ مراد نہیں کہ نعوذ باللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کا جزم یا احتمال راجح یا مساوی بلکہ یا مرجوح بھی ہو گیا تھا جیسا لفظ وہم سے شبہ ہو سکتا ہے سویہاں وہم سے اس کے معنی مصطلح مراد نہیں بلکہ مطلق خیال مراد ہے گو بدرجۂ وسوسہ ہی ہو کیونکہ حضرات انبیاء علیہم السلام کا علم بالصانع فطری وضروری ہوتا ہے گو اول اول اجمالی ہوتا ہے پھر بتدریج تفصیلی ہو جاتا ہے مگر استدلالی نہیں ہوتا اور علم ضروری میں ایسا احتمال ممکن نہیں لیکن وسوسہ ممکن ہے اور وجہ اس وسوسہ کی یہ ہے کہ علم اجمالی کے بعد جب تفصیل کی طلب ہوتی ہے گو یہ طلب بمعنی ترتیب مقدمات نہ ہو بلکہ بمعنی رغبت وتمنا ہو تو یہ طلب شدت محبت کے سبب بعض اوقات ہیمان کا رنگ پیدا کر لیتی ہے جس کے ساتھ بعض نے ووجدک ضالاً کو مفسر کیا ہے اور اس ہیمان سے قوت وعقلیہ مغلوب ہو جاتی ہے گو تھوڑی ہی دیر کے لئے سہی جس کی طرف شرح ہٰذا میں اس قول سے اشارہ کیا ہے کہ عقل عارضی طور پر مغلوب ہوگئی ہے۱ھ۔ اس مغلوبیت کے وقت بعض اوقات مطلوب کے بعض صفات سے ذہن کو ذہول ہو جاتا ہے اور بعض صفات مستحضر رہتی ہیں اور کبھی اس کے تحقق کی یہ صورت ہوتی ہے کہ جو صفات مطلوب وغیر مطلوب کے درمیان فارق ہیں ان سے تو ذہول ہوگیا اور جو صفات مشترک ہیں وہ حاضر رہیں تو ایسے وقت میں اگر کسی ایسے غیر مطلوب کا مشاہدہ ہو جو ان صفات مشترکہ سے متصف ہے یعنی گویا وہ مطلوب کی مثال ہے تو اس مثال پر مطلوب کا وسوسہ ہو جاتا ہے پھر جب وہ غلبہ زائل ہو جاتا ہے تو صفات فارقہ کے فوراً حاضر ہوجانے سے وہ وسوسہ دفع ہو جاتا ہے اورپھر جب معرفت مفصلہ تام ہو جاتی ہے پھر ایسے وسوسہ کی بھی نوبت نہیں آتی پس غیر انبیاء کو جس درجہ میں احتمال ہو سکتا ہے انبیاء کو وسوسہ ہو سکتا ہے اور یہ منافی شانِ نبوت کے نہیں جیسے ایک شخص نے حکایات بیان کی کہ وہ جب گھر آتے تو دروازے پر اپنی چھوٹی لڑکی کو آواز دیتے وہ مرگئی تو ایک بار دروازے پر پہنچ کر اس کا مرنا یاد نہ رہا اور اسی کو پکارنے لگے پر جب یاد آیا تو بہت روئے۔ اب دوسوال باقی ہیں ایک یہ کہ مولانا نے اس کو مضر کیوں کہا۔ جواب یہ ہے حسنات الابرار سیئات المقربین۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا انبیاء علیہم السلام بھی کیفیات سے مغلوب ہوتے ہیں ۔ جواب یہ ہے کہ ہوتے ہیں مگر کم۔ خصوص ابتدائی حالت میں تو کچھ بھی بعد نہیں اور 
Flag Counter