Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

449 - 756
		جناب  محترم نے اپنے فتئے میں یہ عبارت جو حوالۂ قلم فرمائی ہے ’’کیونکہ یہ احکام گو مطلوب ہیں مگر شریعت نے ان کے مطلوبیت کے درجات اور حدود مقرر کیے ہیں جو کتب مذہب میں مضبوط ومبسوط ہیں ان سے تجاوز کرنا تعمق وغلو فی الدین ہے جو شارع کی نظرمیں غیر مرضی ہے اس کے ماتحت مصرحۂ ذیل وجوہ سے خلجان لا حق ہے ضرورت ہے کہ جناب  مکرم اس کو رفع فرمائیں۔ 
امر ہفتم:
	 اس مقصد خاص کے لئے شریعت کے متعینہ ومقررہ درجات وحدود میں سے کیا کوئی درجہ وعد؟؟؟؟آیۃ کریمہ ولا تجھر بصلاتک ولاتخافت بہا وابتغ بین ذلک سے زیادہ صریح بھی موجود ہے؟ اور اگر نہیں!اور یقینا نہیں!!تویہ امر بہت زیادہ قابلِ لحاظ ہے کہ مفسرین نے اس کی علت کے بیان میں جو یہ تصریح فرمادی ہے کہ عدم اعتدال جہر واخفاء کی صورت میں خشیت وتذلل کے رفع کا احتمال ہے جو روح صلوۃ ہے کیا یہ تصریح اس امر صریح کا اظہار نہیں ہے؟ کہ جس جہر فی الصلوۃ میں یہ علت نہ پائی جاتی ہو وہ حدود معینہ شریعت سے باہر ہوگا۔ اور وہ جائز ہوگا۔ اور یہ امر واقع ہے کہ اس آلہ کے ذریعہ جو جہر ہوتا ہے اس میں علت ممنوعہ نہیں پائی جاتی۔ کیونکہ امام کا جہر بحالہ معتدل ہے اور اس کا وصول مامومیں تک امام سے بالکل غیر متعلق ہے اور امام کے عمل کو اس میں کوئی دخل نہیں۔
امر ہشتم:
	شریعت نے جو حدود ودرجات مقرر کیے ہیں کیا وہ توقیفی ومبنی بر حصر قعلی ہیں؟ اگر نہیں ! اور یقینانہیں!! تو جس طرح جمعہ کیاذان ثانیہ اور مکبرین کا مکبرہ پر سے تکبیرات کہنا نظم وترتیب جماعت کے بقاء وتحفظ کی نیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جاری ہوا اور جائز سمجھا گیا اسی طرح اس آلہ کا استعمال صیانت عن خطأ المصلین فی اقتداء الامام اور حصول المقصود من خطبۃ الخطیب کے نیت وغرض سے کیوں نہ جاری ہو سکے؟ اور کیوں نہ جائز سمجھا جائے؟ 
دفعہ چہارم:
 	حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ کی جو نظیر جناب  معظم ے اپنے فتئے میں پیش فرمائی ہے اس پر یہ اعتراضات دماغ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ جناب  مفخم ان کا سدباب فرمائیں۔ 
امر نہم :
	حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کا فعل ایک جلیل المرتبۃ صحابیؓ کا فعل تھا جس سے یہ ہو سکتا تھا کہ آئندہ کے لئے وہ ایک اساس بن جائے اور مسلمان اس کو ضروری قرار دے لیں اور دین میں بجائے یسر کے عسر پیدا ہو جائے۔ اور اسی خیال سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس پر بقول آپ کے نکیر فرمائی مگر یہاں وہ صورت نہیں ہے یہاں اگر کوئی شخص جہر صوت کے لئے آلۂ مبکر الصوت کا استعمال کرے گا ۔ اور وہ شخص بھی کیسا ہوگا؟ عامی ہوگا تو اس کا یہفعل نہ تو کسی وقت اساس قرار پا سکتا ہے اور نہ اس کو مسلمان کبھی ضروری قرار دے سکتے ہیں اور اس وجہ سے اس سے دین میں یسر وعسر کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ اور اس موقع پر جو قیاس کیا گیا ہے وہ قیاس مع الفارق ہے۔ 
امرِ دہم:

Flag Counter