Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

447 - 756
نقل الجواب:
	(یہاں وہ جواب منقول ہے جو ۱۳رمضان ۱۳۴۶؁ھ کو لکھا گیا تھا جو امداد الفتاویٰ میں تاریخ مذکورہ میں تلاش کرنے سے ملجائے گا پھر عبارت ذیل میں بطور تتمہ کے لکھی گئی۔ 
الزیادۃ علی الجواب المذکور:
	حسب اقتضاء خصوصیۃ السوال الحاضرہ (وھی ہٰذہ)باقی سوال میں جن احکام کو مطلوبیت سے اس کی تقویت وتائید کی گئی ہے وہ سفید مدعا نہیں کیونکہ یہ احکام گو مطلوب ہیں مگر شریعت نے ان کی مطلوبیۃ کے درجات اور حدود مقرر کیے ہیں جو کتب مذہب میں مضبوط ومبسوط ہیں ان سے تجاوز کرنا تعمق وغلو فی الدین ہے جو شارع کی نظر میں غیر مرضی ہے چنانچہ حدیث میں اس کی ایک نظیر وارد ہے۔ فی جمع الفواعد قضاء الحاجۃ ابو وائل کان ابو موسیٰ یشدد فی البول ویبول فی قاروۃ ویقول ان بنی اسرائیل اذا اصاب جلد احدھم بول قرضہ بالقاریض فقال حذیفۃ لوددت ان صاحبکم لا یشدد ھٰذا التشدید فلقد رایتنی انا ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تتماشیٰ فانی سباطۃ قوم خلف حائط الی قولہ فبال الحدیث۔دیکھئے تنزہ عن البول شریعت میں اس درجہ مطلوب ہے کہ اس میں خوتاہی کرنے پر وعید شدید بھی وارد ہے اور ایسا مبالغہ فی التنزہ آسانی سے ممکن بھی ہے کیونکہ شیشی قارورہ کی ہر شخص کو میسر ہو سکتی ہے مگر پھر بھی نہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اہتمام فرمایا نہ حضرات صحابہؓ نے اور اگر حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے غلبۂ حال سے اس کا اہتمام کیا بھی تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ان پر نکیر فرمایا اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے نہ اس پر نکیر پر کچھ کلام فرمایا نہ دوسروں کو ایسا کرنے کی رائے دی اور فروع مذکورہ فی السوال کی تکمیل انتظام میں تساہل پر یا خفض صوت فی التکبیر یا فی القرأۃ پر نہ وعید ہے اور نہ اس تکمیل مخترع کا انتظام سہل ہے تو اس میں ایسا مبالغہ کرنا اور اس کیاشاعۃ کا اہتمام کرنا یسر فی الدین کے سراسر خلاف ہے۔ وفی ھٰذا کفایۃ لمن طلب الحق۔ ۲۰ ذیقعدہ  ۱۳۴۶؁ھ
جواب بالا پر ذیل کا خط آیا۔ جو مع جواب منقول ہے
سوال:
	 بسم اللہ الرحمن الرحیم حامدا ومصلیا۔ مکرمی ومحترمی دام فضلکم۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ بجواب استفتاع مرسلہ ۱۸ذی القعدہ الحرام ۱۳۴۶؁ھ جناب  گرانقدر فتویٰ مؤرخہ ۲۱ ذوالقعدہ سنہ مذکور ۲۳ مارچ ذوالقعدہ کو موصول ہوا۔
	جناب  اعلیٰ نے اپنے زریں فتئے میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ سرو آنکھوں پر لیکن جناب  والا کے تبحر علی وسعت نظری سے اس تحریر کے ما تحت گیارہ امور کے متعلق جوپانچ جفعات کے ماتحت ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں۔ مزید استفادہ مطلوب ہے لہٰذا وہ معروض ہیں۔ 
دفعہ اول:
		جناب  اقدس نے اپنے فتئے میں یہ عبارت جو تحریر فرمائی ہے ’’تبلیغ صوت سامعین البعید تک شرعاً غیر ضروری ہے کیونکہ بعیدین کو دوسرے غیر مخدوش ذریعہ سے تبلیغ ممکن  ہے او اس میں یہ مفسدہ محتمل کہ لوگ اس سے گنجائش سمجھ جائیں گے اس آلہ کو لہو میں استعمال 
Flag Counter