Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

446 - 756
	تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ ۳۴۳ میں واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتو کے ماتحت عبارت ذیل مرقوم ہے۔اعلم ان قاریا یقرأ القرا)ن بصوت عال حتی یمکنھو استماع القرآن ومعلوم ان ذالک القاری لیس الا الرسول علیہ الصلوۃ والسلام وکانت ھٰذاہ الآیۃ جاریۃ مجری امر اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بان یقرأ القرآن علی القوم بصوت عال فریع وانما امرہ بذالک لیحصل المقصود من تبلیغ الوحی والرسالۃ۔ اس سے مستخرج یہ ہو سکتا ہے قرأۃ قرآن کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ دوسرے اسے سنیں اور جہاں یہ غرض ہو وہاں اس کو بلند آوز سے ہی پڑھنا چاہئے تاکہ سامعین اس کو فہم کریں اور اس کے سنانے کیاصل غرض حاصل ہو۔ 
اصل پنجم:
		فتاویٰ عالمگیری جلد اول صفحہ ۷۵ مطبوعہ مصر میں عبارت ذیل مسطور ہے لان الامام انما یجھر لا سیما للقوم لیدبروافی قرأتہ لیحصل احضار القلب۔  اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ امام کو مقتدیوں کی ضرورت کے مطابق اپنے قراء ت میں جہر کرنا چاہئے تاکہ قوم اس کے قرأۃ پر تدبر وتفکر کر سکے اور قوم کو حضور قلب حاصل ہو۔ 
اصل ششم:
	آیہ کریمہ ولا تجہر بصلوتک ولا تخافت بہا وابتغ بین ذالک سبیلا سے قراء ۃ میں جس اعتدال وتوسط کا حکم دیا گیا ہے اور مفسرین نے اس کو جو علت بنائی ہے یعنی نماز میں خشیت وتذلل ہونا چاہئے اور اس کا اقتضاء یہ ہے کہ قرأت میں کوئی تصنع وتکلف نہ پیدا ہو۔ جو جرأت وعدم خشیت کی جانب منجر ہے۔ اس کے امتثال کے باوجود اس سے یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ اگر اصل نمبر ۳ اور اصل نمبر ۴ اور اصل نمبر۵ کے ماتحت مصلیوں تک قرأت کی آواز پہنچانا۔ اس طرح سے ممکن ہو کہ امام کو اپنے قرأت میں کوئی تکلف وتصنع نہ کرنا پڑے اور اس کو سکی جانب مشغولیت بھی نہ ہو تو وہ جائز ہوگا جیسا کہ نماز میں پنکھا جھلوانا ناجائز ومکروہ ہے مگر برقی پنکھوں کا چلانا جائز سمجھا گیا ہے کیونکہ اس میں مصلیوں کو کوئی تکلف ومشغولیت نہیں ہوتی۔ بناء علیہ اگر نماز عیدین میں متذکرہ غلطیوں سے بچنے اور امام کی قرأت پورے طور سننے اورا س کے اعمال کی پوری پوری پیروی واقتدار ہونے کے خیال سے موصوف الصدر آلۂ مکبر الصوت کو جو کسی نہج آلۂ غنا وسرود اور آلۂ لوہ ولعب نہیں ہے نصب کیا جائے اور اس سے اس وقت فلسفی وقدرتی یہ فائدہ اٹھایا جائے کہ امام کی آواز بلند ہو جائے اور اس کو ہر مصلی چاہے وہ کتنے ہی دور کیوں نہ ہو ۔ اپنی جگہ پر بلا ادنی تغیر کے سن سکے۔ تو تحقیق طلب امر یہ ہے کہ شریعت غراء مصطفوی کا اس کے متعلق کیا حکم ہے۔ بینوا توجروا ۱۵ ذیقعدہ  ۱۳۴۶؁ھ مطابق ۶مئی   ۲۸  ؁؁ھ
	مکرمی ومحترمی زاد مجدکم۔ سلام مسنون۔ یہ استفتاء ارسال خدمت شریف ہے جہاں تک ممکن ہو اس کے جواب سے جلد از جلد مشرف فرمایے عید الاضحیٰ سے دوتین روز پہلے یہاں اس کی سخت ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ جواب کے لئے ٹکٹ بھی مرسل ہے۔ 
الجواب:
	 	من اشرف علی۔ السلام علیکم۔ رمضان گذشتہ میں ایک ایسا ہی سوال آیا تھا مگر مجمل تھا اس کا جو جواب لکھا گیا اس کا نقل کر دینا کافی سمجھتا ہوں جو درجِ ذیل ہے۔

Flag Counter