Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

444 - 756
مصلی ان کے خیال سے مکبروں کے مزید تعین وتقرر کا انتظام پہلے سے کر نہیں کستے۔ وہاں کا حال تو قابلِ ذکر ہی نہیں۔ وہاں کوئی نظام اور باقاعدگی ممکن ہی نہیں۔ اسی طرح ایسے مواقع ومجامع میں اور بالخصوص عیدین کے موقع پر خطیب کا خطبہ بھی بجز تھوڑے سے لوگوں کے کسی کو سنائی نہیں دیتا اور وہاں اس وقت لوگ اپنا بیٹھنا بیکار سمجھ کر وہاں سے اٹھ جاتے ہیںاور خطبہ سننے کے فوائد اور خطبہ ہونے تک بیٹھے رہنے کے ثواب سے محروم رہتے ہیں بلکہ اس سے زیادہ یہ کہ یاک امرِ شرعی موکد اور ضروری کے ترک کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ 
دوم:
	یہ کہ علامہ شیخ محمد نجیب المطبعی رئیس مجلس علمی محکمہ شرعیہ اور مفتی دیارِ مصریہ کے قول کے مطابق، افلاطون کے مخترعات قدیم میں سے اور مشاہدہ ورواج عام کے مطابق مخترعات جدید میں سے ایک شئی ایسی بھی موجود ہے جس کو آلۂ مکبر الصوت کہتے ہیں اور جس کا ہم معنی انگریزی نام لاؤڈ اسپیکر ہے۔ اور علم البرق اور علم الصوت کے اختلاط وترکیب سے صوت وبرق کے فلسفہ کو پیش نظررکھ کر اس لئے اختراع کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ لاسکی سے یا برقی تاروں سے وصول شدہ آواز کو دور ونزدیک دونوں جگہ نہایت صاف اور واضح سے بلا کسی تغیر وتبدل کے اصلی حالت میں سنا جا سکے۔ اس کی ظاہری صورت وشکل متوسط درجہ کے اس ٹائم پیس (گھڑی) سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے جس کے ڈائل پر سوئیں اور ہندسے نہ ہوں۔ اس کی نصب واستعمال کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو بولنے سے دو چار گز کے فاصلئے پر بلا رعایت تقابل وتواجہہ کے کسی ایسی جگہ رکھ دیا جاتا ہے کہ بولنے والئے کے منہ سے الفاظ نکلتے وقت ہوا میں جو لہریں پیدا ہوں وہ اس آلہ کی بیرونی سطح تک (جس کو ڈائل کہتے ہیں) پہنچ کر اس سے ٹکرا سکیں۔ 
	پھر دورونزدیک جہاں تک آواز پہنچانا مقصود ہوتا ہے اس کے وسط یا آخر میںیا کسی دوسرے مناسب مقام پر قد آدم سے تقریباً سہ چند بلند چندبَلیاں حسبِ ضرورت نصب کیی جاتی ہیں پھر اس آلہ کے پشت سے بجلی کے چند ایسے تار لگا دیے جاتے ہیں جو متذکرہ بلیوں کے بالائی حصہ سے بھی بندھے ہوئے ہوں پھر ان تاروں کے اس آخری حصہ میں جو بلیوں کے سرے سے بندھے ہوئے ہیں گاؤ دم یا سینگ کے ساخت کے کہیے یا مخروطی شکل کے کہیے ہر چہار جانب آواز پہنچانا مقصود ہوتو نہایت چوڑ منہ سے ایسے چونگے لگا دییے جاتے ہیں جن کو عربی میں انبوبہ اور انگریزی میں ہارن کہتے ہیں جس کے لفظی معنی ہی سینگ ہیں۔ اس کے بعد اگر اس مقام پر بجلی کا کوئی ایسا کارخانہ ہوتا جس سے بجلی کے پنکھے چلتے اور روشنی وغیرہ ہوتی ہے تو اس آلہ کو وہاں کے کارخانہ کے بجلی رو یعنی کرنٹ سے ورنہ بجلی کیایسی مشین سے جو اپنے اندر اسی وقت بجلی پیدا کرنے کی قوت رکھتی ہو۔ وابستہ کے کے بجلی کو جاری کر دیا جاتا ہے۔ اب یہ سب ہو چکنے کے بعد جب بولنے والا کچھ بولتا ہے اور اس کی زبان کی حرت سے ہوا میں تموج پیدا ہوتا ہے تو وہ اس آلہ کے بیرونی حصے یعنی ڈائل سے ٹکرا تا ہے اور چونکہ وہ ڈائل نہایت درجہ سبک اور نازک ہوتا ہے اس لئے وہ اسے بہت زیادہ محسوس کرتا اور اس سے بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے اور اسی تاثر کی زیادتی وکمی پر اس میں قوت پلندی اور بڑائی پیدا ہوتی ہے۔ مگر چونکہ واضع نے اس کے زیادتی وکمی کو بھی قانون فلسفہ کے ماتحت اختیاری بنا کر اس کے مدارج قائم کر دیے ہیں۔ اس لئے اس وقت آواز کو جس قدر بلند وبڑا کرنا منظور ہوتا ہے اس کے لحاظ سے اس کا ایک درجہ قائم کر دیا جاتا ہے بالآخر یہ ٹراہٹ مع فرط تاثر جس کا نام قرع قوی ہے۔
	 جب برقی قوت کے ذریعہ اس ہوا تک منتقل ہوتی ہے جو متذکرہ مخروطی شکل کی چونگون سے خارج فضا میں پھیلی ہوئی ہے اور وہ انسانی قوت سماعت تک پہنچتی ہے تو وہ زیادہ بلند اور زیادہ بڑی ہو کر سنی جاتی ہے۔ اور یہ تمام باتیں کتب فلسفہ میں اپنی اپنی جگہ قدیم سے ثابت ہیں اور 
Flag Counter