Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

439 - 756
ہٰذا الشرح بالمسائلۃ فی شرح المکالمۃ واٰخرہ دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔ 
رسالہ تعدیل حقوق الوالدین
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم 
قال اللہ تعالیٰ ، ان اللہ یامرکم ان تؤدوا الامانات الی اھلھا واذا حکمت بین الناس ان تحکموا بالعدل الآیۃ
	اس آیت کے عموم سے دو حکم مفہو ہوئے ایک یہ کہ اہلِ حق کو ان کے حققوق واجبہ ادا کرنا واجب ہے دوسرے یہ کہ ایک حق کے لئے دوسرے شخص کا حق ضائع کرنا نا جائز ہے ان دونوں حکم کلی کے متعلقات میں سے وہ خاص دو جزئی مواقع بھی ہیں جن کے متعلق اس وقت تحقیق کرنے کا قصد ہے۔ ایک ان میں سے والدین کے حقوق واجبہ وغیر واجبہ کی تعیین ہے، دوسرے والدین کے حقوق اور زوجہ یا اولاد کے حقوق میں تعارض وتزاحم کے وقت ان حقوق کی تعدیل ہے اور ضرورت اس تحقیق کی یہ ہوئی کہ واقعات غیر محصورہ سے معلوم ہوا کہ جس طرح بعض لوگ بے قید والدین کے حق میںتفریط کرتے ہیں اور ان کی وجوب اطاعت کی نصوص کو نظر انداز کرتے ہیں اور ان کے عقوق کا وبال اپنے سر لیتے ہیں اسی طرح بعضے دیندار والدین کے حق میں افراط کرتے ہیں جس سے دوسرے صاحبِ حق کے حقوق مثلاً زوجہ کے یا اولاد کے تلف ہوتے ہیں اور ان کے وجوب رعایت کی نصوص کو نظر انداز کرتے ہیں اور ان کے اتلاف حقوق کا وبال اپنے سر لیتے ہیں اور بعضے کسی صاحب حق کا حق تو ضائع نہیں کرتے لیکن حقوق غیر واجبہ کو واجب سمجھ کر ان کے ادا کا قصد کرتے ہیں اور چونکہ بعض اوقات ان کا تحمل نہیں ہوتا اس لئے تنگ ہوتے ہیں اور اس سے وسوسہ ہونے لگتا ہے کہ بعض احکام شرعیہ میں ناقابلِ برداشت سختی وتنگی ہے اس طرح سے ان بے چاروں کے دین کو ضرر پہنچتا ہے اور اس حیثیت سے اس کو بھی صاحب حق کے حقوق واجبہ ضائع کرنے میں داخل کر سکتے ہیں اور وہ صاحبِ حق اس شخص کا نفس ہے کہ اس کے بھی بعض حقوق واجب ہیں۔ کما قال صلی اللہ علیہ وسلم ان لنفسک علیک حقا اور ان حقوق واجبہ میں سب سے بڑھ کر حفاظ اپنے دین کی ہے پس جب والدین کے حق غیر واجب کو واجب سمجھنا مفضی ہوا اس معصیت مذکورہ کی طرف اس لئے حقوق واجبہ وغیر واجبہ کا امتیاز واجب ہوا اس امتیاز کے بعد پھر اگر عملاً ان حقوق کا التزام کرے گا مگر اعتقاداً واجب نہ سمجھے گا تو وہ محذور تو لازم نہ آئے گا اس تنگی کو اپنے پاتھوں کی خریدی ہوئی سمجھے اور جب تک برداشت کرے گا اس عالی ہمتی ہے اور اس تصور میں بھی ایک گونہ حظ ہوگا کہ میں باوجود میرے ذمہ نہ ہونے کے اس کا تحمل کرتا ہوں اور جب چاہے گا سبکدوش ہو سکے گا۔ غرض علم احکام میں ہر طرح کی مصلحت اور جہل میں ہر طرح کی مضرت ہی مضرت ہے، پس اسی تمیز کی غرض سے یہ چند سطور لکھتا ہوں۔ اب اسی تمہید کے بعد اول اس کے متعلق ضروری روایات حدیثیہ وفقہیہ جمع کر کے پھر ان سے جو احکام ماخوذ ہوتے ہیں ان کی تقریر کردوں گا اور اگر اس کو تعدیل حقوق الوالدین کے لقب سے نامزد کیا جائے تو نازیبا نہیں۔ واللہ المستعان وعلیہ الثکلان۔

Flag Counter