Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

436 - 756
وغصب منصب الانکار والسوال فقال المثبت اجابۃً لمسئولہ وتعویلاً علی کونہ علی الحق۔
	 پہلے یہ مقدمہ سمجھ لیا جائے کہ یہ گفتگو کلام لفظی میں ہے کیونکہ کلام نفسی میں اخبار عن غیر الواقع کا عند الفریقین ممتنع بالذات ہونا تقریر بالا سے معلوم ہو چکا ہے جس کو جمہور مخلوق مانتے ہیں۔ اور حادث ودال علی الصفۃ الازلیۃ کہتے ہیں تو اس قدرۃ علی الاخبار عن غیر الواقع بالکلام اللفظی کی (جس کا مشہور عنوان طلبہ(خصہم بالذکر لان ہٰذاہ المسئلۃ متعالیۃ عن افہام العامۃ۱۲منہ) میں اس وقت امکان کذب ہوگیا ہے جو بوج موحش وموہم للعوام ہونے کے قابل ترک ہے کیونکہ عوام الناس امکان کذب کو بمعنی احتمال کذب سمجھتے ہیں اور احتمال کو مطلق امتناع کے مقابل مانتے ہیں یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ کذب (نعوذ باللہ منہ) باری تعالیٰ کے کلام میں محتمل ہے نہ ممتنع بالذات ہے، اور ممتنع بالغیر۔ تو اس عنوان میں افساد عقائد عوام ہے۔ نیز اسی عنوان سے مبتدعین اپنی جاہل اتباع کو بہکاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قائلین توسیع قدرت عیاذاً باللہ) خدا تعالیٰ کو کاذب کہتے ہیں اور فعلیۃ ووقوع کذب کے قائل ہیں۔ فنشکوا بثنا وحزننا الی اللہ وھو المستعان علی ما یصفون ولعنۃ اللہ علی الکاذبین ولا ریب ان فی ہٰذا العنوان بالنسبۃ الی العوام شائبۃ من سوع الادب اعاذنا اللہ منہ وان کان خالیاً عنہا بالنظر الی الخواص والعلماء والطلبۃ فانہم یفہمون حقیقۃ وقد نہی المتکلمون عن اطلاق ’’خالق القردۃ والخنازیر‘‘ علیہ تعالیٰ مع انہ خالقہا وخالق کل شئی۔ لہٰذا اس عنوان کو ترک کر دینا چاہئے اور اس مسئلہ کا عنوان مسئلہ کا عنوان مسئلۃ القدرۃ علی الاخبار عن غیر الواقع بالکلام اللفظفی یا مسئلہ توسیع القدرۃ ہونا چاہئے۔ حقیقت یہ ہوئی کہ ایک ایسا قضیہ پیدا کر دینا مقدور ہے جس کا محکی عنہ بوقت حکایات واقع نہ ہو(حاشیہ:فی التفسیر مساہلۃ فانہ لا یلزم فی الصدق ان یکون المحکی عنہ موجوداً وقت الحکایاۃ او تکون للحکایاۃ لکن المراد بہ ظاہر رغبارعلیہ وھو ان حاصل القدرۃ المذکورۃ مکان خلق قضیۃ وحکایاۃ لا تطاق المحکی عنہ وامثال ہٰذا المساہلۃ کثیرۃ فی مصنفات القوم ۱۲منہ)۔ حضرت حکیم الامۃ مجدد الملۃ مدظلہ کو اس تقریر کو سپردِ قلم فرماتے وقت ایک شبہ پیش آیا جس کا جواب جملہ قرضہ کے طریقہ پر بین القوسین تحریر فرمایا شبہ کی تقریر یہ ہے کہ کلام لفظی حادث کا محل خدا تعالیٰ کی ذات تو ہو نہیں سکتی فانہ یمتنع قیام الکلام اللفظی الحادث بذاتہ وھو لیس بمحل الحوادث والالزم حدوثہ وہو محال کما قالوا۔تو لا محالہ اس کا محل کوئی مخلوق ہو گا خواہ لوح محفوظ ہو یا لسانِ نبی ہو یا لسانِ جبرئی ہو تو اس صورت میں اس کلام میں جس کے ساتھ زیدوعمر ومتکلم ہوں اور کلام لفظی مصطلح میں کوئی فرق نہ رہے گا کیونکہ ان میں سے ہر ایک مخلوق من اللہ وحادث ہے اور ذاتِ خداوندی کے ساتھ قائم نہیں حالانکہ کلام زید وعمر میں وقوع کذب بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا نعوذ باللہ کلام لفظی میں بھی وقوع کذب کا قائل ہونا چاہئے ورنہ کلام زید وعمرو کلام لفظی میں فرق بیان کرنا چاہئے۔ 
جواب:
(البتہ یہ پیدا کرنا ایسی شان سے ہوگا جس سے کوئی مخلوق اس قضیہ کا متکلم نہ کہا جائے گو محل اس کا کوئی مخلوق ہی ہوگا اور یہ شان مجہول الکنہ ہے اور یہی فرق ہے اس کلام لفظی اور کلام زید وعمر میں فافہم(حاشیہ:اشارۃ الی وقتہ ہکذا استفید من الماتن عم فیضہ ۱۲)) یعنی کلام لفظی وکلام زید عمرو میں فرق یہ ہے کہ اول کا پیدا کرنا اس شان سے ہے کہ اس کا متکلم کسی مخلوق کو نہیں کہا جاتا چنانچہ قرآن شریف کو کسی مخلوق کا کلام نہیںکہاجاتا۔ دیکھو شجرۂ طور سے انی انا اللہ کی جو آواز مبارک سنی گئی تھی اس کا متکلم شجرہ کو نہیں کہاجاتا او کلام زید وعمر کا پیدا کرنا اس شان سے ہے کہ اس کا متکلم 
Flag Counter