Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

43 - 756
ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت اتفاق سے کعبہ دیکھنے والا کوئی نہ ہو،اذااراداللّٰہ تعالیٰ شیئا ھیّا اسبابھا اور یہ اس وقت ہے، جب یہی جسم منتقل ہواہو، ورنہ اقرب یہ ہے کہ کعبہ کی حقیقت مثالیہ اس حکم کا محکوم علیہ ہے، جس طرح حدیث نمبر ۳ میں آپ نے بلال ؓ کی مثال کو دیکھا تھا، ورنہ بلال ؓ یقینا اس وقت زمیں پر تھے، اب صرف ایک عامیانہ شبہ رہا کہ اس کی سند جب تک حسب شرائط محدثین صحیح نہ ہو اس کا قائل ہونا درست نہیں ،سو اس کا جواب یہ ہے کہ خود محدثین نے غیر احکام کی احادیث میں سند کے متعلق ایسی تنقید نہیں کی ،یہ تو اس سے بھی کم ہے، یہاں صرف اتنا کافی ہے کہ راوی ظاہرا ًثقہ ہو اور اس واقعہ کا کوئی مکذب نہ ہو، اس تقریر سے اس کا جواب بھی نکل آیا جو سوال میں ہے کہ اگر قرآن وحدیث سے مدلل کیا جائے الخ وہ جواب یہ ہے کہ اگر مدلل کرنے سے یہ مراد ہے کہ بعینہ وہی واقعہ یا اس کی نظیر قرآن وحدیث میں ہو تب تو اس کے ضروری ہو نے کی دلیل ہم قرآن وحدیث ہی سے مانگتے ہیں ،نیز ائمہ محدثین کی کرامات کو کیا اس طرح ثابت کیا جاسکتا ہے؟ اور اگریہ مراد ہے کہ جن اصول پر وہ مبنی ہے وہ قرآن وحدیث کے خلاف نہ ہوں تو بحمد اللہ تعالیٰ یہ امر حاصل ہے۔ 
تنبیہ:
یہ سب اصلاح تھی غلو فی الانکار کی، باقی جو غالی فی الاثبات ہیں ،علما ًیا عملًا ان کی اصلاح بھی واجب ہے ۔واللہ اعلم ۸ رجب ۱۳۳۵ھ
انتیسواں غریبہ
در دفع شبہات متعلق حدیث الحیاء والعیّ شعبتان من الایمان ویستفاد منہ تحقیق معنی قول من عرف اللہ کل لسانہ وقول من عرف اللہ طال لسانہ
سوال:
 ہاں ایک بات حضرت کے والا نامہ میں سمجھ میں نہیں آئی۔الحیاء والعی شعبتان من الایمان کے مطابق تو تمام مومنین کاملین راسخین فی العلم کے اندر عیّ کا شعبہ موجود ہونا چاہئے، لیکن دیکھنے سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اب بھی اور پہلے زمان میں بھی ان لوگوں کی برابر قدرت کسی میں نہیں ہے، اس میں شفاپوری طرح نہیں ہوئی، گویا حضرت کے والا نامہ سے علیحدہ ہو کر بھی نفس حدیث کے متعلق یہ شبہ گزرتا ہے۔
جواب:
یہ عیّ عجز نہیں ،بلکہ مشابہ عجز ہے ،یعنی باوجود قدرت کے یہ خوف کہ کبھی منہ سے کوئی کلمہ خلاف مرضی حق نہ نکل جائے، جس کو حدیث میں حیاء سے تعبیر کیا ہے ،ان کی روانی مقدورکو روک کر مشابہ عاجز کے بنادیتاہے اور وہ رک رک کر بولتے ہیں اور جتنی روانی اس حالت میں بھی ہوتی ہے، وہ بہ نسبت روانی مقدور کے عیّ ہوتی ہے، اگر یہ خوف نہ ہوتا تو ان کی روانی زیادہ ہوتی ،البتہ جب اصابۃ میں ملکہ تامہ راسخہ ہوجاتاہے تو پھر یہ احتیاط عادت بن کر بشکل عیّ ظاہر نہیں ہوتی اور کبھی غلبہ التفات الی الحق سے علوم اصطلاحیہ سے ذہول ہونے لگتاہے، اس لئے تکلم میں عیّ واقع ہوتاہے، سو یہ التفات بھی شان مومن سے ہے اور اس تقدیر پر حیا مستقل صفت ہوگی، عیّ کی علت نہ ہوگی الا بتوجیہ بعید وھو حمل الحیاء علی الحیاء عن الالتفات الی غیر الحق اور ایک حالت جو صورۃ عی ہے، منتہی غیر مغلوب الحال کو پیش آتی ہے، وہ یہ 
Flag Counter