Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

42 - 756
	وفی اللمعات جاء فی حدیث ابن عباسؓ فجیء بالمسجد حتی وضع عند دار عقیل وانا انظر الیہ ۔
بعد نقل ان احادیث کے جواباً عرض کرتاہوں کہ سوال میں معترض کے دو قول نقل کئے ہیں ایک یہ کہ یہ قلب موضوع ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ ناممکن ہے۔ قول اوّل کی دلیل یہ بیان کی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعظیم طواف سے کی اور قول ثانی کی کوئی دلیل بیان نہیں کی ،سو قلب موضوع کا جواب حدیث نمبر(۱) سے ظاہر ہے کہ ابن عمر ؓ کعبہ سے ہر مؤمن کو افضل سے بتارہے ہیں اور اوّل تو یہ امر مدرک بالرائے نہیں، اس لئے حکما مرفوع ہوگا اور اگر اس سے قطع نظر بھی کیا جائے تاہم کسی صحابیؓؓ اس پر نکیر منقول نہیں ،پھر اس کی صحت میں کیا شک رہا ؟پھر ابن ماجہ میں تو اس کے رفع کی تصریح ہے اور سند بھی اچھی، اب کلام مذکور کی بھی حاجت نہیں رہی ۔رہ گیا طواف فرمانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُس کا اور اس کی تعظیم کرنا، سو یہ ایک امر تعبدی ہے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مساجد کا احترام فرماتے تھے تو کیا مسجد کا آپ سے افضل واعظم ہونا لازم آگیا؟اسی طرح بیت معظم بھی آپ سے افضل نہ ہوگا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے افضل ہوئے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا طواف کیا تو اس سے ثابت ہو گیا کہ مفضول کا طواف افضل کرسکتا ہے، سو اگر مومن بیت معظم سے مفضول بھی ہوتا، تب بھی افضل کا طواف کرنا مفضول کے لئے جائز ہوتا ،چہ جائیکہ مومن کا افضل ہونا بھی ثابت ہوگیا، پھر تو کچھ بھی استبعاد نہ رہا۔ باقی یہ ظاہر ہے کہ یہ فضیلت جزئی ہے، اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ انسان کو جہت سجدہ بھی بنایا جائے یاانسان کا کوئی طواف کرنے لگے اور یہ سب اس وقت ہے کہ طواف بطور تعظیم ہو اور اگر یہ طواف لغوی ہو بمعنی آمد ورفت جو، مقارب ہے زیارت کا تو وہ اپنے مفضول کے لئے بے تکلف ہو سکتاہے ،جیسا حدیث نمبر ۵و۶ میں مصرح ہے اور محض ایسے امور سے افضلیت کا لزوم کیسے ضروری ہوگا؟۔
 جبکہ حدیث نمبر ۲ میں تقدم بلال ؓ کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر منقول ہے، اسی لئے اس تقدم کو شرّاح حدیث نے تقدم الخادم علی المخدوم سے مفسرّ کیا ہے ،پس ایسا ہی یہاں ممکن ہے، نیز عرش جو کہ تجل گاہ خاص حق ہے اور اس کی صنعت میں کسی بشر کو دخل نہیں بظاہر بیت معظم سے افضل ہے، باوجود اس کے اس کی حرکت ایک امتی کے لئے حدیث نمبر ۳ میں مذکور ہے، سو اسی طرح اگر بیت معظم کسی مقبول امتی کے لئے حرکت کرے تو کیا استبعاد ہے؟ نیز روح اس حرکت کی اشتیاق ہے، سو جنت جو کہ حق تعالیٰ کے تجلی خاص کا دار ہے، حدیث نمبر ۴ میں اس کا مشتاق ہونا بعض امتیان مقبولین کی طرف وارد ہے تو کعبہ کا اشتیاق بھی کسی مقبول امتی کی طرف کیا مستبعد ہے ؟پس ان حدیثوں سے خود زیارت وطواف کا استبعاد تو دفع ہو گیا، جو کہ بحث نقلی تھی، اب صرف یہ بحث عقلی باقی رہی کہ خانہ کعبہ اتنا بھاری جسم ہے ،یہ کیسے منتقل ہو سکتا ہے؟ سو اوّل تو ان اللہ علیٰ کل شئی قدیرمیں اس کا جوا ب عام موجود ہے، دوسرے حدیث نمبر ۷کے ضمیمہ میں جو اب خاص بھی ہے ،جو خصائص کبریٰ جلد اوّل ص ۱۶۰میں نقل کیا ہے ،بتخریج احمد وابن ابی شیبۃ والنسائی والبزاروالطبرانی وابی نعیم بسند صحیح۔
 اور یہ سب گفتگو قول اول کے متعلق تھی ،رہا قول ثانی کہ یہ ناممکن ہے یاہ استفسار یہ ہے کہ آیا عقلا ناممکن ہے یا شرعا یا عادۃ اول کا انتفاء ظاہر ہے، اگر شق ثانی ہے تو معترض کے ذمہ اس کا ثبوت ہے، وانّیٰ لہ ذلک اور اگر شق ثالث ہے تو مسلم ہے، بلکہ مفید ہے،کیونکہ کرامت ایسے ہی واقعہ میں ہے جو عادۃ ممتنع ہو، ورنہ کرامت نہ ہوگی ۔اب ایک شبہ باقی ہے، وہ یہ کہ حس اس کی مکذب ہے ،کیونکہ تاریخ میں کہیں منقول نہیں کہ کعبہ اپنی جگہ سے غائب ہوا ہو، سو ایسا ہی شبہ حدیث سابع کے ضمیمہ میں ہوتا ہے، سو جو اس کا جواب ہے ،وہی اس جواب ہے اور وہ یہ 
Flag Counter