Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

429 - 756
السوال کے صحیح ہونے پر اس حدیث کے کیا معنی ہوں گے القلب یزنی جس کی تفسیر آئی ہے یتمنی ویشتھی اوربہت نصوص بے معنی ہو جائیں گے لہٰذا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے غلاباً وجہ اس التزام کی صاحب تعلیق کی یہ ہوئی کہ اگر غیر اختیاری مراد ہو تو اس امت کی کیا تخصیص ہوگی جب تخصیص ہے تو لامحالہ اختیاری پر محمول ہوگا حالانکہ یہ غلط ہے ایک درجہ ایسا ہے کہ شروع ہوتا ہے غیر اختیاری سے اور منجر ہوجاتا ہے اتیاری کی طرف اس طرح سے کہ اگر اس کو اسکے حدوث پر تنبیہ اور اس کے اختیاری ہونے کا احساس ہو تو اس کو روک سکتا تھا مگر ذہول کے سبب اس کے حدوث پر تنبہ اور اس کے اختیاری ہونے کی طرف التفات نہیں ہوا۔ پس یہ درجہ فی نفسہ اختیاری تھا اور امم سابقہ اس کی مکلف تھیں کہ دوران وسوسہ میں اس کا استحضار رکھیں کہ یہ درجہ تو پیدا نہیں ہوگیا اور بفور پیدا ہونے کے اس کو دفع کردیں مگر یہ امت اس کی اس لئے مکلف نہیں ہوئی کہ اس میںشدواری تھی۔ پس جس طرح دوسرے اصرار واغلال کا ان کو مکلف نہیں کیا گیا اسی طرح اس درجہ کا بھی ان کو مکلف نہیں کیاگیا لیکن اگر تنبہ ہوگیا تو اس کا بھی مکلف ہو جائے گا۔ باقی جس وسوسہ کو ابتدا ء ہی سے عمداً قلب میں لائے اور قصداً ہی اس کو باقی رکھے اس پر مؤاخذہ ہونا صحیح وصریح نصوص میں وارد ہے البتہ اگر یہ صاحبِ تعلیق کوئی حجت ہیں تو تاویل کی جائے گی۔ واللہ اعلم (بعد میں تعلیق مل گئی معلوم ہوا مصنف حجت نہیں۔ 
چورانئے واں نادرہ
 جواب اشکال برواقعہ بعض بزرگان تہجد بلا وضو
(مضمون)
 	کتاب نزہۃ البساتین کی حکایات نمبر ۴۱۵ میں یہ لکھا ہے کہ ایک بزرگ بلا وضو نماز تہجد ادا فرماتے تھے۔ کیا یہ جائزاور درست ہے اگر ایسا ہوتو بیماروں کو بڑی آسانی ہو جائے۔ اس کامطلب سمجھ میں نہیں آیا وضاحت چاہتا ہوں۔ 
(جواب)
 	یہ تونہیں لکھا کہ بلا وضو نماز تہجد ادا فرماتے تھے بلکہ یہ لکھا ہے کہ بلا وضو کیے دورکعت نماز پڑھی الخ تو نقل کرنے میں دو غلطیاں ہوئیں۔ ایک غلطییہ کہ بلا وضو کیے کی جگہ بلا وضو لکھ دیا حالانکہ دونوں کے مفہوم میں زمیں آسمان کا فرق ہے کسی خاص وقت میں وضو نہ کرنے سے یہ کیسے لازم آگیا کہ ان کوپہلے سے بھیوضو نہ تھا۔ اگر یہ شبہ ہو کہ اس کے قبل لکھا ہے کہ وہ سوئے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ راوی کاگمان ہے۔ یہ سمجھے ہوں گے کہ سو گئے اور وہ سوئے نہ ہوں گے اس کابڑا اچھا قرینہ چند سطر بعد کہ بلا تجدید وضو کے صبح کی سنتیں پڑھی۔ یہ لفظ بتلا رہا ہے کہ تازہ وضو نہیں کیا سابق وضو سے نماز پڑھی۔ دوسری غلطی نقل میں یہ کی گئی کہ واقعہ جزئیہ کو عادت وائمہ کے صیغہ سے نقل کیا اور کسی کابھی یہ مذہب نہیں کہ بلا وضو یا بدل وضول نماز جائز ہے بلکہ ایسا کرنے کو کفر لکھا ہے۔ اور ظن راوی سے جواب دینے کی ضرورت اس وقت ہے کہ اصل کتاب میں کوئی لفظ ہو جس کا ترجمہ صرف سونا ہو مثلاً رقاد اور اگر لفظ نوم ہو مثلاً تو وہ عام ہے نعاس کو کمافی القاموس تو پھر جواب بے تکلف ہے کیونکہ ہر نعاس ناقض وضو نہیں فقط۔
پچانئے واں نادرہ 

Flag Counter