Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

423 - 756
مولونا اسماعیل شہید رحمہ اللہ کا قول حق اور سراسر صدق سے ممتلی ہے کیونکہ رفع وعدم دونوں کے مسنون ہونے کی خود آنجناب  کی تصریح ہے۔ اب انصاف یہ ہے کہ دونوں کے مسنون ہونے کا اعتقاداً اسی وقت حقیقۃ اعتقاد کہلانے کے قابل ہے کہ ہر دو امر کو ایک نظر سے دیکھیں۔ اور جب شقین میں سے کسی ایک شق کے بھی عامل پر بس طعن وتشنیع کا باب مفتوح کر دیا جائے تو فقط زبانی دعوی رہ جاتا ہے اس لئے حقیقت میں مولانا اسماعیل شہید رحمہ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث من احییٰ سنتی الخ کے مصداق تھے ۔ 
الجواب:
	 حسبِ مشورہ مستفتی صاحب مقام میں غور کرنے سے یہ سمجھ میں آیا کہ مولانا شہید رحمہ اللہ نے جو حدیث کا محمل تجویز فرمایا اس میں حضرت شاہ عبد القادر صاحب رحمہ اللہ نے اختلاف فرمایا سو وہ محمل مختلف فیہ ہوگیا اور حضرت شاہ صاحب نے جو محمل تجویز فرمایا اس میںحضرت مولانا رحمہ اللہ نے اتفاق فرمایا چنانچہ امیر الروایات میں بسند ثقات اس کی بھی تصریح ہے کہ جب مولوی محمد یعقوب صاحبنے یہ جواب مولوی اسماعیل صاحب بیان کیا تو وہ خاموش ہوگئے اور کوئی جواب نہ دیا ۱ھ اور مولونا شہید ایسے نہ تھے کہ غیر حق پر خاموش ہو جاتے خود ان کے واقعات حق گوئی کے اپنے اکابر کے ساتھ متکاثر اور متواتر ہیں اور حق گوئی ادب کے لہجہ سے بھی ہو سکتی ہے لہٰذا اس میں خلاف ادب ہونے کا بھی احتمال نہیں ایسی حالت میںجواب نہ دینا صاف دلیل ہے تسلیم اور اتفاق کی پس یہ محمل متفق علیہ  ہوگیا۔ اور متفق علیہ راجح اور مقدم ہوتا ہے مختلف فیہ پر۔ پس حضرت شاہ صاحب کے جواب میں خدشہ کرنا خود مولانا پر خدشہ کرنا ہے کہ انہوں نے غیر واقعی محمل کو کیوں قبول کیا۔ رہا یہ کہ پہلے سے دوسرے غیر واقعی محمل کے کیوںقائل تھے سو امور اجتہاد یہ میں ایسا سوال نہیں ہو سکتا مگر وضوح حق کے بعد اس کے قائل نہ رہے اور یہ بہت بڑا اکمال ہے کہ اس سے رجوع فرمالیا۔ پہلی رائے میں ایک اجر کے مستحق تھے۔ دوسری رائے میں دو اجر کے مستحق ہو گئے۔ پس سوال کا جواب ضروری ہوگیا۔ باقی تبرعاً کچھ مزید بھی عرض کرتا ہوں وہ یہ کہ یہ معلوم نہیں کہ اس کے بعد رفعِ یدین کو ترک فرمایا نہیں لیکن اگر نہ بھی ترک فرمایا ہو تو وہ عدم ترک پھر بھی اس حدیث کا محمل بہت تھوڑی نیت سے ہو سکتا ہے اس طرح سے کہ پہلے تو نفس رفعِ یدین کو احیاء سنت کی نیت سے کرتے تھے اور پھر اس قصد سے کرتے ہوں کہ امور واسعہ میں طعن وتشنیع نہ کرنا سنتِ مسلوکہ مقصدہ فی الدین ہے اور یہ سنت مردہ ہو چکی ہے اور اس کے مقابلہ میں تضیق ہے جو کہ خلافِ سنت اور بدعت ہے پس رفعِ یدین اس طعن وتشنیع کی مخالف اور انسداد کے لئے کرتے ہوں جو کہ سنت مردہ کا احیاء ہے۔ اور یہ محمل متفق علیہ کی فرد ہے رہا یہ کہ خود حضرت شاہ صاحب نے اس سنتِ مردہ کا احیاء اس طرح کیاں نہ فرمایا اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں ایک دوسری سنت بھی ہے وہ یہ کہ جس امر مستحب میں عوام ضعفاء کی تشویش اور شورش کا اور اس سے ان کے دین کے ضرر کا احتمال قوی ہو وہاں اس کا ترک کر دینا بھی سنت ہے جس کی دلیل حطیم کا واقعہ پس ممکن ہے کہ حضرت شاہ صاحب نے اس سنت کواس سنت سے اہم سمجھا ہواس لئے سنت کو اختیار نہ کیا ہو اور عوام کے اعتقاد کیاصلاح زبانی تبلیغ سے فرمادینے کو کافی سمجھا ہو۔ اور مولانا شہید رحمہ اللہ نے اس کا عکس سمجھا ہو۔ پس اس تقریر پر دونوں حضرات کی تحقیق اور عمل ہر طرح کے شبہ اور اعتراض سے سالم اور بے غبار رہتا ہے اور اس کے خلاف میں دونوں حضرات پر جرح لازم آتا ہے۔ واللہ اعلم ۔ولتسم ھزا الجواب بالتحریر النادر۔ لتقریر الشاہ عبد القادر من قدر علی احسن من ھٰذا فھنیئا لہ ۱۴ جمادی الاخری ۱۳۵۵؁ھ
چھیاسی واں نادرہ 

Flag Counter