Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

419 - 756
لازم نہیں آتی وہ تشقیق خاص یہ ہے کہ یا تو وہ مسئول خیر محض ہے وہاں دوسری شق کے خیر ہونے کا احتمال ہی نہیں تو تشقیق لغو ہوئی اس لئے اس سے نہی کی گئی جیسے مغفرت ورحمت ورزق ضروری کا سوال اور یا وہ مسئول گو محتمل نفع وضرر دونوں کو ہے جیسے رزق مبسوط مگر منشا تشقیق کا مسئول کا تعاظم ہے جو موہم ہے نقص قدرت یا ضیق علی القادر کو جیسا کہ اس نہی کی اس تعلیل سے واضح ہے انہ یفعل ما یشاء ولا مکرہ لہ فان اللہ تعالیٰ لا یتعاظمہ شئی اعطاہ ۔ ورنہ مطلق تشقیق دوسری احادیث میں صراحۃً وارد ہے چنانچہ ایک دعاء میں ہے  احینی ما علمت الحیاۃ خیرا الی وتوفنی اذا علمت الوفاۃ خیراًلی رواہ النسائی اور دوسری دعا میں ہے  واذا اردت بقوم فتنۃ بے اصل ہو گیا۔ کیونکہ یہاں یہاں منشا تشقیق کا وہ نہیں جو علت ہے نہی کی تو اب تائید ثانی قول منقول عن الطبقات کی حاجت نہیں رہی دوسرے مؤیدات کافی ہیں۔ اس تحقیق مذکور کے ایک مدت بعد ایک فاضل دوسرے دوست نے جامع صغیر سیوطی کی ایک حدیث دکھلائی جس کے ظاہر الفاظ سے متبادر ہوتا ہے کہ استخارہ کے بعد میلان قلب کا انتظار کیا جائے وہ حدی ثیہ ہے فی شرح الجامع الصغیر تحت کلمۃ اذا ما نصہ اذا ھممت بامر فاستخرربک فیہ سبع مرات ثم انظر الی الذی یسبق الی قلبک فان الخیرۃ فیہ۔ ابن السنی فی عمل یوم ولیلۃ (فر) عن انس (ضعیف) چنانچہ علامہ حفنی نے بھی یہی سمجھ کر حاشیہ میں لکھا ہے واقل الاستخارۃ ان تکون بادعاء واکملھا بالصلوۃ والدماء المعروف فاذا انشرح صدرہ اقبل ای انشراحاً غیر نفسانی بان لم یکن موجوداً قبل الاستخارۃ۱ھ۔ 
	 اور یہ تحقیق سابق سے معارض ہے۔ جواب یہ ہے کہ واقعی طاہراً باہم تعارض ہے۔ آگے دو ہی صورتیں ہیں یا اس حدیث کے ضعف کی بناء پر تحقیق سابق کو ترجیح ضبط بھی کر لیا مگر بعد ضبط کی شرح صدر نہیں ہوا اور جتنی دلیلیں ذہن میں آئی تھیں سب مجروح ومخدوش معلوم ہوئیں پھر حق تعالٰ سے دعاء کی دعاء کے بعد جو قلب پر وارد ہوا اس کو لکھتا ہوں وہ یہ کہ ظاہر الفاظ سے عدول کرنا خلاف اصول ہے لہٰذا اس ظاہر کا قائل ہونا ہی متعین ہے باقی تحقیق سابق کی ترجیح کی بناء تین امر تھے ایک یہ کہ کسی حدیث میں اس انتظار کا ذکر نہیں دوسرے یہ کہ بعض اوقات کسی شق کی ترجیح خیال میں نہیں آتی تو اس صورتمیں استخارہ عبث ہوا تیسرے یہ کہ اگر کسی شق کی ترجیح خیال میں آگئی تو اس پر عمل کرنا الہام پر عمل ہوا جو شریعت میں حجت نہیں مگر بعد تامل ان سب بناؤں کا جواب سہل ہے۔ اول کا یہ کہ اس کا حاصل روایات کااس سے ساکت ہونا ہے اور ناطق مقدم ہے ساکت پر اور یہ حدیث ناقط ہے۔ دوسری کا یہ کہ یہ باعتبار اکثر ہے اور اس کے خلاف نادر ہے۔ اور للا کثر حکم الکل اور کالمعدوم کا اعتبار احکام کثیرہ میں کیاگیا ہے تو اس سے عبث ہونا لازم نہیں آتا۔ تیسری کام یہ کہ الہام کا حجت نہ ہونا بایں معنی ہے کہ اس پر عمل واجب نہیں  یہ نہیں کہ جائز بھی نہیں خود بعض احکام میں ارشاد ہے استفت قلبک  س سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وارد علی القلب پر عمل جائز ہے اور یہ ورودِ احد الشقین کا مرجح ہو سکتا ہے البتہ یہ شرط ہے کہ دونوں شقیں شرعاً جائز ہوں۔ باقی حدیث کا ضعف سوا گر تعارض ہوتا تو قوت سے ایک کو ترجیح دی جاتی جب تعارض نہیں جیسا اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ ناطق اور ساکت میں تعارض نہیں ہوتا اور روایات قویہ ساکت ہیں تو حدیث ضعیف کو احد الشقین کے لئے مرجح اور مؤید کہہ سکتے ہیں۔ اس کی نظائر احکام میں بکثرت ہیں اس لئے اب اس باب میں قول مشہور ہی کو ترجیح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ پس اقرب الی الادب واجمع للدلائل یہ ہے کہہ استخارہ کے بعد اگر کسی شق کا رجحان قلب میں آجائے تو اس پر عمل کرے اور اگر کسی کا رجحان نہ ہو تو جس شق پر چاہے عمل کرلئے۔ اس تفصیل سے دونوں قولوں پر اور بواسطہ دونوں قولوں کے سب دلائل پر 
Flag Counter