Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

418 - 756
اس القاء پر ہی عمل کرنا چاہئے تو چونکہ وہ القاء الہام ہے اور اسی پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا تو گویا الہام پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا لہٰذا اگر استخارہ کے اس حاصل کو صحیح مانا جائے تو الہام کا حجت شرعیہ ہونا لازم آتا ہے اور لازم صحیح نہیں لہٰذا ملزوم بھی صحیح نہیں۔ نیز استخارہ کا حاصل اگر طبقات شافعیہ کے موافق مانا جائے تو اس سے ایک شبہ کا جواب بھی بخوبی ہو جاتا ہے اور اس شبہ کیاور اس کے رفع کی تقریر یہ ہے کہ حدیث میں آتا ہے 
’’اذا دعا احدکم فلا یقل اللہم اغفرلی ان شئت ارحمنی ان شئت ارزقنی ان شئت ولیعزم المسئلۃ انہ یفعل ما یشاء ولا مکرہ لہ رواہ البخاری اور دوسری حدیث میں ہے اذا دعا احدکم فلا یقل اللہم اغفرلی ان شعت ولکن لیعزم المسئلۃ ولیعظم الرغبۃ فان اللہ تعالیٰ لا یتعاظمہ شیٔ اعطاء رواہ مسلم ‘‘۔
	یعنی اس طرح دعاء نہ مانگے اے اللہ اگر آپ چاہیں تو میری مغفرت فرما دیجیے مجھ پر رحمت فرما دیجیے مجھ کو رزق دے دیجیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تشقیق کے ساتھ دعاء نہ مانگنا چاہئے اس پر یہ شبہ ہوتا تھا ہک استخارہ کے اندر جودعاء تعلیم فرمائی گئی اس کے اندر تو تشقیق موجود ہے اور اس شبہ کے جوابات بھی ذہن میں تھے مگر انصاف یہ ہے کہ وہ جوابات گو صحیح اور معقول تھے مگر شافی نہ تھے اور اب جبکہ استخارہ کا حاصل صرف طلبِ خیر مانا جائے تو پھر پوری تشفی ہو جاتی ہے کیونکہ اب استخارہ کی دعا کے اندر جو تشقیق ہو گی وہ محض لفظی ہوگی واقع میں تشقیق نہ ہوگی بلکہ واقع میں صرف ایک ہی چیز مطلوب ہوگی اور وہ خیر ہے کہ وہی خیر ہر حال میں مطلوب ہے کہ اگر ایک شق میں خیر ہو تب تو اس کی دعا ہے کہ اسی کی توفیق ہو جائے اور اگر دوسری شق میں خیر ہوتو پھر اس کی دعا ہے۔ لہٰذا استخارہ کا حاصل محض طلبِ خیر ہے نہ کہ استخبار۔ پھر حضرت نے عبارتِ ذیل لکھ کر عنایت فرمائی۔ 
	فی فتح الباری کتاب الدعوات باب الدعاء عند الاستخارۃ تحت قولہ علیہ السلام ثم رضنی بہ ما نصہ واختلف فیما ذایفعل المستخبر بعد الستخارۃ فقال (عز الدین) ابن عبد السلام یفعل ما ارتفق ویستدل لہ بقولہ فی بعض طرق حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ فی آخرہ ثم یعزم واول الحدیث اذااراد احدکم فلیقل ۱ھ قلت دل ھٰذا اللفظ علی ان الاستخارۃ لا یختص بما فیہ تردد بل ھو اعم لما ارادہ بلا تردد وایضاً فی حدیث جابر رضی اللہ عنہ قال کان النبی صلی اللہ لعیہ وسلم یعلمنا الاستخارۃ فی الامور کلھا مافیہ تردد وما لیس فیہ تردد ولا یشکل قولہ اذاھم فان الھم اعم للارادۃ وما قبلہا ولا یختص بالتردد کما فی قلوہ تعالیٰ وھمت کل کل امۃ برسولھم لیاخذوہ وغیرہ من النصوص القراٰنیۃ والحدیثیۃ۔ 
ضمیمہ ملفوظ بالا متعلق تشقیق فی الدعاء 
	(جو صاحبِ ملفوظ دام ظلہ العالی نے بعد میں لکھ کر الحاق کے لئے دیا) غور کرنے سے ذہن میں آیا کہ اگر دعا استخارہ میں تشقیق بھی مان لی جائے تب بھی نہی عن التشقیق سے شبہ نہیں ہو سکتا کیونکہ نہیں تشقیق خاص سے ہے تو اس سے مطلق تشقیق کی نہیں لازم نہیں آتی وہ تشقیق کی نہی 
Flag Counter