Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

417 - 756
البتہ خیر عام ہے خواہ دنیوی ہو یا دینی جیسا رسالہ مذکورہ میں خط ثلاث کے جواب میں یہی مرقوم ہے بقولی خواہ کامیبای کی صورت میں الی قولی صبر کا اجر ملے۱ھ ۲۲۔ شعبان۱۳۵۴؁ھ 
یادداشت:
	 میرا یہ ملفوظ رسالہ میں شائع ہونے والا تھا مگر ناظرین کو انتظار اور تلاشک کے تعب سے بچانے کے لئے مناسب معلوم ہوا کہ اس کو بھی اسی مقام پر نقل کر دیا جائے۔ وھو ھٰذا
ملفوظ:
	 ۲۲شعبان ۱۳۵۴؁ھ ایک اہلِ علم وفضل نے عرض کیا کیہ طبقات شافعیہ میں استخارہ کے متعلق ایک بہت بڑے عالم کی (جنکا نام جامع کو یاد نہیں رہا) عجیب تحقیق نظر سے گذری وہ کہتے ہیں کہ یہ جوعام طور پر مشہور ہے کہ استخارہ سے مقصود استخبار ہے یہ صحیح نہیں یعنی استخارہ کا مقصدیہ نہیں کہ ہم کو جو کسی کام میں تردد ہو رہا ہے یہ کام ہمارے لئے خیر ہے یا نہیں استخارہ کرنے سے یہ تردد رفع ہو جائے گا او ر ہم کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ کام ہمارے لئے خیر ہے یا شر پھر خبر ہوگا اس کو اختیار کریں گے چنانچہ ہم  مشاہدہ کرتے ہیں کہ بعض اوقات استخارہ کے بعد بھی وہ تردد رفع نہیں ہوتا اور یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات مفید ہے تو اس صورت میں لازم آتا ہے کہ استخارہ موضوع ہوا تھا واسطے رفع تردد کے اور تردد رفع ہوا نہیں تو نعوذ باللہ شارع کا یہ حکم گویا عبث ہی ہوا اور شارع کی طرف سے کبھی ایسی بات کا حکم نہیں ہو سکتا جو عبث ہو تو معلوم ہوا کہ استخارہ کا یہ مقصود ہیں کہ کوئی بات اس کے ذریعہ سے معلوم کر لی جائے جس سے تردد رفع ہو اور اس کام کی دونوں شقوں میں سے ایک شق کی ترجیح ضرور قلب میں آجائے پھر راجح جانت پر عمل کیا جائے بلکہ استخارہ کی حقیقت یہ ہے کہ استخارہ کی حقیقت یہ ہے کہ استخارہ ایک دعا ہے جس سے مقصود صرف طلبِ اعانت علی الخیر ہے یعنی استخارہ کے ذریعہ سے بندہ حق تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ میں جو کچھ کروں اسی کے اندر خیر ہوا ار جو کام میرے لئے خیر نہ ہو وہ کرنے ہی نہ دیجیے پس جب وہ استخارہ کر چکے تو اس کی ضرورت نہیں کہ سوچے کہ میرے قلب کا زیادہ رجحان کس بات کی طرف ہے پھر جس بات کی طرف رجحان ہو اس پر عمل کرے اور اسی کے اندر اپنے لئے خیر کو مقدر سمجھے بلکہ اس کو اختیار ہے کہ دوسرے مصالح کی بناء پر جس بات میں ترجیح دیکھے اسی پرعمل کرے اور اسی کے اندر خیر سمجھے ۱ھ (اس کے بعد ۱۹ ذیقعدہ  ۱۳۵۶؁ھ کو مولوی محمد شفیع صاحب مدرس دارالعلوم دیوبند کے واسطہ مولانا شبیر احمد صاحب دیوبندی کی نقل کی ہوئی عبارت ذیل موصول ہوئی۔ 
	فی طبقات الشافعیۃ صفحہ ۲۵۸جلد۵ فی ترجمۃ الشیخ کمال الدین ابن الزملکانی وھو شیخ الذھبی قال الذھبی فی حقہ شیخنا وکان من بقایا المجتہدین ومن ازکیاء اھل زمانہ عن الشیخ کمال الدین انہ کان یقول اذا صلی الانسان رکعتی الاستخارۃ لامر فلیفعل بعدھا ما بدالہ سواء انشرحت نفسہ لہ ام لا فان فیہ الخیر وان لم ینشرح لہ نفسہ قال ولیس فی الحدیث اشتراط انشراح النفس ۱ھ 
	اس پر حضرت حکیم الامۃ دام ظلہم العالی نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت میرے نزدیک ذوقاً یہی اقرب معلوم ہوتا ہے جو طبقاتِ شافعیہ سے نقل کیا گیا ہے۔ نیز اصول شرعیہ میں سے ایک اصل سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے وہ یہ کہ قاعدہ کلیہ ہے کہ الہام حجت شرعیہ نہیں تو اگر استخارہ کا حاصل یہ سمجھا جائے گا جو مشہور ہے، کہ اس کے ذریعہ سے قلب میں ایسی بات کا من جان اللہ القاء ہوتا ہے کہ جس کے اندر خیر ہوتی ہے۔ لہٰذا 
Flag Counter