Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

416 - 756
موقع پرمحاورات میں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ دونوں ایک ہی چیز ہیں جیسے سورۂ قیامہ میں قرأت جبرائیلیہ گو اپنی طرف منسوب کر کے قرأناہ فرما دیا لیکن اس وقت جو لوگ ایسی شطحیات میں مبتلا ہیں یہ تاویل ان کے خوب میں بھی نہیں آئی اس لئے وہ یقینا زندقہ ہے۔ ساتویں کبھی یہ محاورہ ایک کی نفی دوسرے کے اثبات کے لئے مستعمل ہوتا ہے یعنی پیر کوئی چیز نہیں حاکم خدا ہی ہے جیسا حدیث میں ان اللہ ھو الدھر کے معنی یہ ہیں کہ پیر کوئی چیز نہیں متصرف خدا ہی ہے اور حکمت اس مأول کی تصویب میں معذورین سے کف لسان کی تعلیم ہوگی اور قرینہ اس مضمون ماؤل کے مقصود فی الدین نہ ہونے اور قابلِ التفات نہ ہونے کا اس کی شرح کے وقت آواز کا دھیمی ہوتے ہوئے چلا جاتا ہے جس کی خط میں تصریح ہے ورنہ حق مامور بہ کی شان کا مقتضا تو وہ ہے جو اس آیا میں مذکور ہے فاصدع بما تؤمر تو اتنے احتمالات کے ہوتے ہوئے اس کی ظاہری مراد کیسے صحیح ہو سکتے ہے یقینا وقطعاً باطل ہے جسکا اعتقاد کفر ہے پھر اگر دوسرا اسکے خلاف خواب دیکھ لئے تو کیا دونوں خوابوں کو صحیح کہا جائے گا بلکہ قانون نقلی وعقلی کی بناء پر اذا تعارضا تساقطا کا حکم کر کے دوسری دلیل غیر متعارض کی طرف رجوع کیا جائے گا اور وہ نصوص قطعیہ محکمہ ہیں معتبر کتابوں میں ہزاروں واقعات ایسے بلکہ اس سے بھی زیادہ شبہ میں ڈالنے والئے منقول ہیں آج تک کسی عالم نے کسی عارف نے خوابوں کو نصوص پر ترجیح نہیں دی بلکہ خوابوں کو غلط سمجھ کر نصوص پر عمل کیا اور اس اعتقاد کا تو احتمال بھی کفر ہے کہ کوئی چیز شریعت میں منفی ہو اور طریقت میں مثبت ہو خود ائمہ طریقت نے بلا اختلاف اس اعتقاد کا ابطال کیا ہے۔ نیز خواب پر عمل کرنے والئے سے اگر باز پرس ہوئی کہ تو نے خواب کے سبب نصوص کو کیسے ترک کیا تو اس کے پاس کوئی عذر معقول مقبول عقلی یا نقلی نہیں اور اگر نصوص پر عمل کرنے والئے سے بازر پرس ہوئی (اور یہ محض فرض محال ہے) تو اس کے پاس نہایت صحیح وقوی عذر ہیں جو اوپر مذکور ہوئے غرض ہر حال میں ظاہری مدلول خواب کا واجب الرد ہے۔ واللہ یقول الحق وھو یہدی السبیل
چہترواں نادرہ 
تحقیق ثمرۂ استخارہ
فصل نوزدہم در تحقیق ثمرہ استخارہ:
 	میرا ایک رسالہ نافع الاشارہ جس میں بعض احکام استخارہ کے متعلق کچھ سوال وجواب ہیں (جو ربیع الاول  ۱۳۵۲؁ھ میں لکھا گھیا ہے اور النور شعبان ورمضان وشوال  ۱۳۵۲؁ھ میں چھپا) اس میںمیری ایک عبارت ہے کہ اے اللہ اگر یہ معاملہ میرے لئے خیر ہو تو میرے قلب کو متوجہ کر دے ورنہ میرے دل کو ہٹا دے اس کے بعد اگر اس طرف قلب متوجہ ہو تو اس کے اختیار کرنے کو ظناً خیر سمجھے۱ھ ملخّصا۔ سو دعاء کا یہ حاصل یعنی قلب کا متوجہ ہو جانا اور یہ ثمرہ کہ جس طرف قلب متوجہ ہو اس کو اختیار کر لئے یہ مشہور قول ہے اور نووی وغیرہ اسی طرف گئے ہیں۔ کما نقلہ الحافظ فی فتح الباری کتاب الدعوات باب الدعاء عند الاستخارۃ تحت قولہ ثم رضنی بہ بما نصہ یفعل بعد الاستخارۃ ما ینشرح بہ صدرہ  مگر دلائل سے راجح یہ ثابت ہو کہ اس انشراح کے انتظار کی ضرورت نہیں بلکہ جو مناسب سمجھے کر لئے۔ یہ قول عز الدین عبد السلام کا ہے اور دلائل اس کی ترجیح کے میرے ایک ملفوظ میں ہیں جو القول الجلیل حصہ دوم میں ضبط کیا گیا اس دعا کی برکت یہ ہو گی کہ باوجود اس کے ارادہ کے خیر ہی کا صدور ہوگا غیر خیر کا صدور ہی نہ ہوگا 
Flag Counter