Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

415 - 756
کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تحریر کرنا چاہتے ہیں تاکہ آپ بعد میں تقاضا نہ کریں لیکن وہ خاموش ہوگئے اور کہنے لگے رہنے دو حق تو میرا ہی ہے یہی لکھیں گے۔ اتنے میں ہم ایک دوسرے کمرے میں پہنچ گئے وہاں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ایک بالکل سادی چارپائی کی پائینتی بیٹھے ہوئے دبلے پتلے اور لوگوں سے سفید تھے وہاں بھی یہی گفتگو ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ رونے لگے مگر ہم انہیں خاموش کر کے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے لئے گئے جب ہم وہاں پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وصال پا چکے تھے۔ باوجود جانتے ہوئے کہ وصال پا چکے ہیں۔ میں نے انہیں بیدار کیا ۔ چادر اسی طرح اوپر پڑی تھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ بیٹھے اور معاملہ پیش ہوا اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حق میں تحریر کر دی اس کے بعد تمام حاضرین رخصت ہوگئے اور صرف میں اکیلا رہ گیا آنحضور علیہ الصلوۃ والسلام چہل قدمی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے میں بھی ساتھ ہو لیا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور والد بزرگوار کے سلسلہ کے درمیان ایک مسئلہ کے متعلق تنازع ہے اس کا حل کیا ہے۔ فرمایا کیا۔ میں نے عرض کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ پیر اور خدا ایک چیز ہے۔ فرمایا درست کہتے ہیں۔ میں نے عرض کی کس طرح۔ آپ تشریح کرنے لگے اور میں سننے لگا۔ ابھی ایک دو فقرے کہے تھے کہ مجھ یوں معلوم ہوا جیسے میں آہستہ آہستہ کسی دوسری دنیا کو لئے جایا جارہا ہوں۔ افسوس میں ان کی تشریح کونہ سن سکا۔ میرے کانوں میں وہ آواز دھیمی دھیمی ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک جب بالکل چپ ہوگئے تو میں بیدار تھا اور خواب کا نظارہ میری آنکھوں میں تھا۔ مولانا صاحب سچ عرض کرتا ہوں اس دن سے اور تذبذب میں پڑگیا ہوں مجھ سا گنہگار فاسق بدکار (یہ حقیقت ہے) اور حضور علیہ الصلوات والسلام کا دیدار۔ میں کہتا ہوں کوئیمجھ سے قریب نہ ہومگر جب بزرگوں سے یہ سنتا ہوں کہ بزرگوں خصوصاً انبیاء کی شکل میں کوئی بدروح خواب میں متشکل ہو کر نہیں آئی نہ آ سکتی ہے تو پھر ان کے اس ارشاد پر کہ تمہارے والد صاحب درستی پر ہیں اور حیران ہوتا ہوں۔ مہربانی فرما کر جواب سے سرفراز فرمائیں۔
الجواب:
	 واقعہ مسئولہ میں کئی شک ہیں۔ اول یہ شک کہ مرئی حضور ہی تھے صلی اللہ علیہ وسلم کیونکہ ایک قول یہ بھی ہے کہ واقعیت کی یہ بھی شرط ہے کہ جلسہ کے موافق زیارت ہو اور یہاں آپ کی شانِ رفیع کے مناسب ہیئت میں بھی نہیں ہوئی چنانچہ خط میں چھپر کت بھی معمولی اور کچھ علالت بھی لکھی ہے۔ دوسرا یہ شک ہے کہ وہ حضور ہی کی آواز مبارک تھی جیسا تلک الغرانیق العلی کے قصہ میں بعض علماء سامعین کے اشتباہ کے قائل ہوئے ہیں۔ تیسرا یہ شک کہ سننے والئے نے صحیح بھی سنا کیونکہ جب بیداری میں سماع میں غلطی ہوجاتی ہے تو خواب تو بے ہوشی کی حالت ہے۔ چوتھا یہ شک کہ صحیح بھی سمجھا ہے جیسا مصر میں اشرب الخمر میں تمام علماء نے رائے کی غلطی قرار دی تھی۔ پانچواں یہ شک کہ صحیح یاد بھی رہا اور جب دیکھنے والئے ہم جیسے ظلماتی قلوب والئے ہوں جیسے رائی نے اس جملہ میں کہ (یہ حقیقت ہے) اس کو تسلیم کر لیا ہے تو یہ شکوک اور زیادہ قوی ہو جاتے ہیں بلکہ شک کے درجہ سے گذر کر غلطی کی جانب راجح بلکہ متیقن ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ خود اس خواب کے بعض اجزاء یقینا اضغاث احلام ہیںجیسا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خلافت بلا فصل کو اپنا حق بتلانا جو کبھی زمانہ تحقیق احکام میں بھی نہیں فرمایا جو یقینا دلیل ہے رائی کے خلط خیالات دماغیہ کی جس سے بقیہ اجزاء خواب سے بھی امن مرتفع ہوا جاتا ہے۔ 
	چھٹے ان سب سے قطع نظر کر کے جب یہ معارض ہے نصوصِ قطعیہ کے تو مثل حدیث معارض قطعی کے یا متروک ہوگا یا مأول ۔ اور تاویل یہ ہے کہ معنی مجازی کے اعتبار سے درست ہے وہ معنی مجازی یہ ہیں کہ پیر کامل کا حکم بوجہ موافقت حکم شرع کے گویا خدا ہی کا حکم ہے ایسے 
Flag Counter