Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

411 - 756
سہل الحصول ذریعہ (نصب درختاں) سے پورا کرنے کی سعی جدید بدعت کی تعریف میں آجاتی ہے اور اس کا قیاس قطع مسافت کی قدیم ضرورت کے جدید سامان یعنی تیز رفتار مثلاً سیارات (موٹر) وریل وطیارات (ہوائی جہاز) ودخانی جہازات وخلقنا لھم من مثلہ ما یرکبون پر قیاس مع الفارق ہے۔ نیز اگر نصب دوختاں کا سلسلہ قائم رہا تو وادی عرفات بجائے میدان کے باغ یا بَن کی صورت میں تبدیل ہوجائے گی۔ لہٰذا استفتاء ہے کہ (۱) میدانِ عرفات میں حجاج بموسم گرما دھوپ اور لو سے بچنے کے خیال سے سایہ دار درختوں کا نصب اور اس میں سعی شرعاً جائز ہے یا ناجائز۔ (۲) اگر نصب یا سعی جائز ہے تو مباح ہے یا مستحب یا سنت یا واجب یا فرض۔ (۳)اگر ناجائز ہے تو مکروہ تنزیہی ہے یا تحریمی یا حرام؟ (۴) بصورتِ عدم جواز ناصبین یا ساعین کو منع کرنا مسلمانوں پر حسبِ حیثیت لازم ہے یا نہیں؟ (۵)حد عرفات کے خط کے باہر مسجد نمرہ کی پشت پر نصب درختاں کا حکم بھی مثل وادی عرفات ہے یا اس کے غیر؟ (۶) شہرِ مکہ اور حدودِ حرم کے اندر نصب درختاں کے جواز کو میدانِ عرفات پر قیاس کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب:
	عرفات اور حدِ حرم کے اندر سایہ کے لئے درختوں کا لگانا بلا شبہ فی نفسہ جائز ہے اور لغیرہ استحباب کا حکم بھی کیا جاسکتا ہے اگر چہ افضل اس کا ترک ہے جواز کی دلیل یہی کافی ہے کہ عدمِ جواز کی کوئی دلیل نہیں بلکہ کلیات ظاہراً جواز ہی پر دال ہیں، فقہاء نے باب جنایات الحجج میں قطع حشیش حرم واشجار حم نابتہ ومنبتہ ثمرہ وغیرہ کے احکام کیا باحۃً ونہیاً وضماناً تفصیل فرمائی ہے اگر غرس اشجار میں کسی درجہ کی بھی کراہۃ ہوتی اس موقع پر سکوت کے موہم ہونے کے سبب اس کا ضرور ذکر فرماتے مگر اس سے اصلاً تعرض نہیں کیا یہ واضح دلیل ہے جواز بلاکراہت کی…نیز فقہاء نے منیٰ میں جو کہ داخل حرم ہے ابنیہ کے وجود پر صحت جمعہ کو متفرع فرمایا ہے اور ا نکی کراہت سے تعرض نہیں کیا بطریق مذکور یہ بھی دلییل ہے ابنیہ کی جواز بلاکراہۃ کیاور ابنیہ اور اشجار کا اشتراک غرض ارتفاق میں ظاہر ہے پس قیاس سے بھی جواز کی قوت ہوگئی اور جب حدِ حرم کے اندر ایسے تصرفات کی اجاازت ہے تو حدِ حرم کے باہر مثلاً عرفات میں بدرجہا اولیٰ اجازت ہوگی۔یہ دلائل تھے جواز فی نفسہ کے۔ باقی استحباب لغیرہ کی یہ توجیہ ہو سکتی ہے کہ یہ حجاج کو راحت پہنچانا ہے اور حجاج کو راحت پہنچانا اقل درجہ مستحب ضرور ہے اور یہ شبہ کہ خیر القرون میں نہ تھا اس لئے مرتفع ہے کہ خیر القرون میں پایا جانا عام ہے وجود عین اور وجود دلیل کو اور دلیل مع نظیر اوپر مذکور ہو چکی ہے وہ نظری ابنیہ ہے ان میںاور اشجار میںکوئی معتد بہ تفاوت نہیں۔ اور اگر جواز میں ارتفاق مؤثر نہ ہوتا تو خود ابنیہ منیٰ کا عہد نبوی میں نہ ہونا خیر القرون میںجواز سے مانع سمجھا جاتا اور بلا نکیر اس کو جائز سمجھا جاتا۔ باقی ترک کا افضل ہونا وہ اس لئے ہے کہ اس میں سنت کی صورت ومعنی کو جمع کرنا ہے اور اس مجموعہ کا صرف رعایت معنی بلا صورت سے افضل ہونا ظاہر ہے اور حجاج کے ہلاک غالب کے خوف کو اس افضلیت ترک میں قادح نہ سمجھا جائے کیونکہ اس کا انتظام اہلِ استطاعت ضعفاء غیر اہلِ استطاعت کو اپنے خیمہ وغیرہ میں شریک کر لینے سے کر سکتے ہیںالبتہ اس غرض اظلال کے لئے کسی مسجد میں درخت لگانا بقول راجح مکروہ ہے جس کی علت مشابہت بیعہ اور موضع موضوع للصلوۃ کو مشغول کرنا ہے البتہ خود عمارت مسجد کی مصلحت کے لئے درخت لگانا جیسے نمی کا جذب کرنا یہ اسی کراہت سے مستثنیٰ ہے۔ ذکر ھذا کلہ فی الدر المختار ورد المحتار احکام المسجد قبیل باب الوتر واللہ اعلم بعشرین من شعبان  ۱۳۵۳؁ھ
چوہترواں نادرہ 

Flag Counter