Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

410 - 756
تحقیق معنی حدیث مبشرات
	تحقیق معنی حدیث مبشرات حدیث لم یبق من النبوۃ الا المبشرات وفی الرؤیا الصالحۃ الحدیث او کما قال کے متعلق وارد ہوتا ہے کہ خصالِ نبوت تو اور بھی باقی ہیں پھر اس حصر سے اوروں کی نفی کیسے صحیح ہوئی۔ 
	جواب یہ ہے کہ یہ حصر حقیقی نہیں جس سے دوسرے خصال کے بقاء کی نفی لازم آئے بلکہ حصر اضافی باعتبار وحی کے ہے مقصود بقاء وحی کی نفی کرنا ہے یعنی اب وحی نبوت کا سلسلہ باقی نہیں منقطع ہوچکا ہے۔ باقی یہ کہ یہ دلالت تو دوسرے خلاص میں حصر کرنے سے بھی مستفاد ہو سکتی تھی مثلا یوں فرمایا جاتا کہ لم یبق من النبوۃ الا الاخلاق اور مقصود اس سے بھی نفی وحی کی ہوتی پس اس دلالت کے لئے مبشرات کو کیوں خاص کیا گیا اگر چہ ذکراً ہی سہی جواب یہ ہے کہ ان خصال میں مبشرات اشبہ بالوحی ہیں بوجہ اشتراک فی انکشاف الغیب کے دوسرے خصال اسقدر مشابہ نہیں پس اس وقت مشابہت کے سبب مبشرات کے بقاء سے وہم ہو سکتا تھا بقاء وحی کا اس لئے اس عنوان سے وحی کی نفی کرنا ابلغ تھا کہ جو چیز سب سے زیادہ مشابہ وحی کے ہے اس کا بقاء بھی مستلزم نہیں بقائِ نبوت کو چہ جائیکہ دوسرے خصال باقی یہ کہ ایسا اشتراک فی انکشاف الغیب کشف والہام میں بھی ہے ان کو مبشرات کے ساتھ کیوں نہیں ذکر فرمایا۔ جواب یہ ہے کہ وہ بھی حکماً ملحق بالمبشرات ہیں کیونکہ ان میں بھی مثل رؤیا کے اس عالم سے ایک گونہ غیبت ہوتی ہے پس وہ بھی بحکم رویا ہیں۔ رویاء کے مفہوم میں حکماً وہ بھی داخل ہیں پس گویا معنی کلام کے یہ ہیں۔ لم یبق الا الرؤیا والکشف والالہام ۔ یا اگر وہ رویا میں داخل نہیں مگر وصف جامع مذکور کے سبب وہ رؤیا پر مقیس ہیں۔ بہرحال سب کا اتحاد حکم میں ثابت ہوگیا پس سب اشکال دفع ہوگئے اور حدیث کا مضمون منقح ہوگیا۔ ۲۸ رمضان  ۱۳۵۲؁ھ 
تہترواں نادرہ
نصبِ اشجاردر عرفات
استفتائ:
	بعض ہمدرد مسلمانوں کا خیا ل ہے کہ چونکہ درفات میں یہ موسم گرما دھوپ اور لو کی شدت سے ہزارہا غیر مستطیع حجاج جو خیمہ وغیرہ کا انتظام نہیں کر سکتے ہلاک ہوتے یا سخت تکلیف اٹھاتے ہیں۔ اگر وہاں سایہ دار درخت کا فی تعداد میں مثل بر گد (بڑھ یا پلکھن (پاکھر) وغیرہ نصب کر دیے جائیں تو ان کے سایہ میں گرمی اور لو سے امن متوقع ہے۔ یہ لوگ نصب درختاں کے لئے ساعی ہیں اور ان کا یہ خیال ہے کہ سلف سے اب تک اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ زمانۂ قدیم میں بردگد اور پلکھن کے وجود اور سر زمیں حجاز میں ان کے سر سبز ہونے علم نہ تھا اور ن اس زمانہ کے سے ذرائع حمل ونقل موجود تھے۔ لوگ جفاکشی کے عادی بھی تھے لیکن کچھ مسلمان اس امر میں متأمل ہیں۔ آخر الذکر طبقہ کا یہ خیال ہے کہ وادی عرفات کے اس قدرتی منظر کو خیر القرون سے بھی ہزارہا سال پہلے انسانی تصرفات سے پاک اور ہیئت اصلی پر ہی برقرار رکھا جاتا رہا ہے اور باوصف اس کے کیہ ضرورت رفعِ شدت وحدت قدیم ہے اور اسکے اسباب (نصبِ درختاں سایہ دار) بھی قدیم اور سہل ومعروف تاہم سلف سے آج تک یہ صورت جو کسی وقت بھی دشوار ہن تھی اختیار نہیں کی گئی جیسی کہ آب رسانی کی قدیم ضرورت کو نہرزبیدہ کی تعمیر سے باوجود عسیر الحصول ہونے کے زمانہ سلف ہی میں جبکہ کم از کم تبع تابعینؒ بھی موجود تھے پورا کر دیا تو رفع شدت حر کی قدیم ضرورت کو 
Flag Counter