Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

4 - 756
وگر سالکے محرم راز گشت
کسے رادریں بزم ساغر و ہند
یکے باز رادیدہ بردوختہ است
کسے رہ سوے گنج قاروں نبرد
بمردم دریں موج دریائے خوں
اگر طالبی کایں زمیں طے کنی
تامل در آئینۂ دل کنی
مگر بوئے از عشق مستت کند
بپائے طلب رہ درینجابری
بدرویقیں پروہائے خیال
دگر مرکب عقل را پویہ نیست
دریں بحر جز مرد داعی نرفت
بہ بندند بروے در باز گشت
کہ داروئے بیہوشیش در و ہند
یکے دیدہا بازو پر سوختہ است
وگر بردرہ بازبیرول نبرد
کرو کس نردہ است کشتی بروں
نخست اسپ باز آمدن پے کنی
صفائی بتدریج حاصل کنی
طلب گار عہد الستت کند
وزینجا ببال محبت پری
نماند سرا پردہ الاّجلال
عنانش بگیرد تحیر کہ ایست
گم آں شدکہ دنبال راعی نرفت
قال السعدی ؒ :’’وگرسالکے محروم راز گشت الی قولہ دریں بحر جز مرد داعی نرفت‘‘ ان ابیات میں ظاہراً ایک اشکال ہے وہ یہ کہ اس سے اوپر ادراک ذات و صفات بالکنہ کا امتناع بیان کیا ہے تو ظاہر یہی ہے کہ یہاں : ’’وگر سالکے ....الخ‘‘ میں اسی کا تحقق فرض کیا گیا ہے اور یہ صریح تعارض بھی ہے ، دوسرے واقع کے بھی خلاف ہے کیونکہ ادراک بالکنہ فی الواقع ممتنع ہے تو اس کا فرض ہے (کیونکہ فرض کرنا محال کا بھی محال نہیں اور مقصود حضرت مصنف کا یہ ہے کہ فض محال گو جائز)محال ہے، اس پر احکام واقعیہ مرتب نہیں ہوتے ، جیسا یہاں ’’وگر سالکے ...الخ‘‘ میں مرتب کئے گئے ہیں، پھر اخیر میں : ’’دریں بحر...الخ) میں ظاہراً مشار الٰہیہ بھی ادراک بالکنہ ہوگا تو اس میں ایک تعارض مذکور کا اشکال ہوگا اول مطلقاً امتناع کا حکم کیا تھا، یہاں اس سے استشناء کیا دوسرے واقع کے بھی خلاف ہوگا، کیونکہ ادراک بالکنہ کا امتناع واقع میں عام ہے۔ 
تیسرے : ’’وگر سالکے ...الخ‘‘ کے مدلول سے معارض ہوگا، کیونکہ اس میں بعض سالکین کے لئے اس کا وقوع فرض کرلیا گیا ہے پھر اس ’’حصر دریں بحر جز مرد داعی ...الخ‘‘ کے کیا معنی اور اگر شعر: وگر سالکے...الخ کی توجیہ کے لئے ادراک بالکنہ نہ لیا جائے بلکہ معرفت مخصوص جاہل الفنا لی جائے تو اشکال تعرض کا تو جاتا رہے گا لیکن : ’’بہ بندند بروے ...الخ‘‘ میں اشکال ہوگا، کیونکہ اس میں بقاء عد الفنا کی نفی ہوتی ہے، حالانکہ یہ حکم صحیح نہیں، دوسرے : ’’دریں بحر جز مرد داعی نرفت‘‘ میں اگر بحر سے مراد فنا ہے تو اوپر کے حکم: ’’وگر سالکے ...الخ‘‘ سے معارض اور اگر مراد بقا ہے تو علاوہ اس کے کہ اس تعبیر میں بُعد ہے، کیونکہ بحر کا خاصہ استغراق ہے اور بقا میں استغراق نہیں، خود یہ حصر بھی واقع کے خلاف ہے اولاد اکثر سالک حصول بقاء سے ممتاز ہوتے ہیں اور اگر کوئی درجہ عالیہ لیا جائے تو دوسرے انبیأ علیہم السلام اس میں شریک ہیں یہ ہے تقریر اشکال کی، توجیہ اس کی جو دو روز کے غور کے بعد خیال میں آئی یہ ہے کہ ایک ادراک عقلی حے، ایک کشفی ہے اور ایک یعنی ہے یعنی رویت، پس اثبات میں تو ادراک عقلی کے متعلق بالکنہ ہونے کی نفی ہی، چنانچہ لفظ قیاس و لفظ فکرت اس کا قرینہ ہے اور اس حکم کی صحت ظاہر ہے 
Flag Counter