Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

399 - 756
ترجمہ:
	ترجمہ کا حاصل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ خندق میں یہ رجز بڑپ رہے تھے واللہ لو لااللہ ما اھتدینا الخ اور اسکے ختم پر جو کلمہ ہے ابینا اس کو مکرر اور آواز کو دراز اور بلند کر کے فرماتے تھے۔ اس حدیث کی دلالت ضرب کی مشروعیت پر اس طرح ہے کہ بعض کلمات میں ضرب سے مقصود اثرِ خاص کا اہتمام ہے اور یہی اہتمام اثرِ خاص مقصود تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ ابینا کے تکرار اور جہر ومدِ صوت سے پس علت کے اشتراک سے حکم بھی متعدی ہو جائے گا اور یہ حدیث جس طرح مشروعیت ضرب پر معنیً دال ہے اسی طرح جہر بالذکر ومد صوت ببعض کلمات وتکرار بعض اجزاء کلام جیسے الا اللہ بدون تکمیل جملہ پر بھی نصاً دال ہے۔ اولین پر دلالت ظاہر ہے ثالث پر دلالت کی تقریر یہ ہے کہ پورا کلام مقصود مجموعہ ہے عامل ومعمول یعنی شرط وجزاء کا یعنی اذا ارادو فتنۃ ابینا مگر آپ نے صرف ایک جزو یعنی جزاء ہ کا جو کہ معمول ہے تکرار فرمایا بدون شرط کے جو کہ عامل ہے اسی کے مشابہ ہے تکرار الا اللہ معمول کا بدون ل الہ عامل کے تو اس سے مضمون آئندہ یعنی سوم کی بھی ایک زائد دلیل حاصل ہوگئی۔ 
تقریر مطلوب بعنوان دیگر:
	حاصل اس ضرب کا کلام کے ایک جزو کے طرز ادا کا دوسرے اجزاء کے طرز ادا سے مختلف کر دیان اور بدل دینا ہے یعنی خفت وسہولت وسلاست سے قوت شدت وجزالت کی طر ف اور یہی تبدیل کلمۂ ابینا میں متحقق ہے گو یہ وقت مقیس علیہ میں بہیئت رفع صوت ہے اور مقیس میں بہیئت ضرب اور ظاہر ہے کہ خصوصیت رفع صوت کا جواز کے لئے شرط ہونا یا خصوصیت ضرب کا جواز کے لئے نافع ہونا کسی دلیل سے ثابت نہیں اور اشتراک علت کے بعد ایسی خصوصیات کا تفاوت مقیس مقیس علیہ میں شائع ہے اب یہ بات رہ گئی کہ مقیس میں اس تبدیل طرزادا کی ضرورت ہی کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ وہی ضرورت ہے جو مقیس علیہ میں ہے یعنی اہتمام اثرخاص جیسا تقریر اول میںمذکور ہوا یہ تو اس وقت ہے، جب داعی مقیس میں مصلحت اور حکمت کو کہا جائے اور اگر مقیس میںداعی جوش طبعی کو کہاجائے تو سنت میں اس کی بھی نظیر ہے۔ وھو بما فی زاد المعاد عن مسلم کان صلی اللہ علیہ وسلم اذا خطب احمرت عیناہ وعلا صوتہ واشتد غضبہ حتی کانہ منذ رجیش الحدیث)۔
	 اور ان دونوں یعنی مذکورہ روایت بخاری ومسلم کے علاوہ ایک اصل سنت میں اور ہے جو دونوں وجہ کو متحمل ہے یعنی تغییر اضطرار کو بھی جو بوجہ تشابہ مقیس میں تغییر طبعی کا ماخذ ہو سکتا ہے اور تغییر اختیار کو بھی جو بوجہ تشابہ مقیس میں تغییر بمصلحت ماخذ ہو سکتا ہے اور وہ اصل واقعہ ہے قرأۃ نبویہ بالترجیح کا جس کو بعض علماء نے اختیار سے کہا ہے اور بعض نے اضطرار سے وھو فی زاد المعاد انہ صلی اللہ علیہ وسلم رجع یوم الفتح فی قراء تہ ان ا فتحنا لک فتحا مبینا وحکی عبد اللہ بن مغفل ترجیعۃ أأأثلث مرات ذکرہ البخاری ثم قال صاحب الزاد ان ھٰذا الترجیع منہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اختیار الاضطرار الھز الناقۃ ۱ھ کما ذہب الی البعض وھما القولان فی الواقعۃ ۔ واللہ اعلم ۲۲ ج۲  ۱۳۴۹؁ھ
انسٹھواں نادرہ 

Flag Counter