Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

397 - 756
	ایک مدحضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمہ اللہ کے پاس تھا جس کی مسلسل سند حضرت زید بن ثابت رضی اللہ  عنہ کے مد تک (جو کہ انہوں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے ناپ کر بنایا تھا) پہنچتی ہے اس کو مولانا تھانوی مدظلہم العالی نے دو مرتبہ بھر کر وزن کیا تھا کیونکہ نصف صاع دو مد کا ہوتا ہے تو ۸۸ کے سیر سے ڈیڑھ سیر ڈیڑھ چھٹانک ہوا تھا جو حساب مذکورہ بالا کے تقریباً مطابق ہے صرف پون چھٹانک کا فرق ہے جو بہت زیادہ نہیں۔
(۳)
	تحریر مذکورہ بالا میں درہم کا وزن ۳ماشہ ۱   ۵/۱ رتی اور مثقال کا بحوالہ غیاث ساڑھے چار ماشہ لکھا گیا ہے یہی اوزان مظاہرِ حق میں نواب قطب الدین صاحب نے بھی لکھے ہیں نیز حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمہ اللہ کی بیاض میں بھی دو سو تہتر تولہ صاع کا وزن مع حوالہ مظاہر حق ودر مختار درج ہے اور مستند مد کے موافق بھی یہی وزن ہے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ درہم ۳ماشہ ۱   ۵/۱ رتی اور مثقال ساڑھے چار ماشہ کا قرار دیا جائے۔ لیکن مولانا عبند الحی لکھنوی نے حاشیہ شرح وقایہ میں جو حساب درج فرمایا ہے اس میں درہم دو ماشہ ڈیڑھ رتی کا اور مثقال ۳ ماشہ ایک رتی کا قرار دیاہے جس کی وجہ سے سونے چاندی کے نصاب زکوۃ میںبھی بہت فرق پڑ گیا کہ سونے کا نصاب پانچ تولہ دو ماشہ چار رتی اور چاندی کا چھتیس تولہ پانچ ماشہ چار رتی ہوا اور صاع کے وزن میں بھی بہت فرق آگیا ۔ تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ بناء اس تفاوت کی یہ ہے کہ مولونا موصوف نے چار جو کی ایک رتی قرار دی ہے اور غیاث ومظاہر حق کے قول پر تقریباً تین جو کی ایک رتی ہوتی ہے اس بناء تفاوت کے معلوم ہونے پر ہم نے خود جو اور رتی کا وزن احتیاط کے ساتھ کیا تو ثابت ہوا کہ ایک رتی کے وزن میں چار جو نہیں چڑھتے پھر مجموعہ ستر جو کو جوحسبِ تصریح شامی وغیرہ درہم کا وزن ہے یکجا کر کے تولا گیا تو تقریباً پچیس رتی وزن ہوا جس سے معلوم ہوا کہ حساب صحیح وہی ہے جو بحوالہ مظاہرِ حق وغیرہ ذکر کیا گیا ہے کہ درہم کا وزن ۳ ماشہ ۱   ۵/۱ رتی ہے ۔ اور مولانا لکھنوی کے حساب کے متعلق یہ ممکن ہے کہ اتفاقاً چھوٹے جو ہاتھ آئے ہوں جن سے وزن کیا گیا یا وزن کرنے کے وقت اتفاقاً چھوٹے جو سے دیکھا گیا ہو نیز رتی یعنی گونگچی بھی چھوٹی بڑی ہوتی ہے ممکن ہے کہ کبھی بڑی گونگچی سے تولا گیا ہو ہم نے اسی احتیاط کے مدنظر بہت سے جو میں سے متوسط جو اور بہت سی گونگچیوں میں سے متوسط گونگچی تلاش کرکے وزن کیا ہے اور اس کے علاوہ فقہاء نے درہم ستر جو کا اور مثقال سو جو کا لکھا ہے اور چاندی کا نصاب دو سو درہم اور سونے کا نصاب بیس مثقال اور صاع ایک ہزار چالیس درہم اور نصف صاع پانچ سو بیس درہم کا لکھا ہے اگر ہمارے تولنے کا اعتبار نہ ہوتو جس کا جی چاہے ستر جو کو تول کر درہم کا وزن معلوم کرے اور اس کو دوسو سے ضرب دے کر چاندی کا نصاب اور پانچ سو بیس سے ضرب دے کر نصف صاع نکال لئے اور سو جو کو تول کر مثقال کا وزن معلوم کر کے اور اس کو بیس سے ضرب دے کر سونے کا نصاب نکال لئے۔ واللہ اعلم۔
(۴)
	زکوۃ میں بھی ہمارے حضرات اکابر نے اسی وزن کو معتبر رکھا ہے کہ ساڑھے باون تولہ کے ۳ماشہ ۱   ۵ /۱ رتی کا درہم مان کر پورے دو سو درہم ہوتے ہیں) اسی طرح بیس مثقال (جو سونے کا نصاب زکوۃ ہے اس) کے بحساب ۴ ماشہ فی مثقال ساڑھے سات تولہ قرار دیتے ہیں۔ فقط وللہ الحمد ۔ کتبہ الاحقر عبد الکریم گمتھلوی عفی عنہ خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون۔ ۲۷ جمادی الاولی  ۱۳۴۸؁ھ
نوٹ متعلقہ عبارتِ بالا:

Flag Counter