Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

395 - 756
جواب :
	 گو مناظرین کیایسی عادت ہے مگر قرآن مجید کی ایک آیت کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ امر قبیح ہے وہ آیت یہ ہے{ لقد سمع اللہ قول الذین قالوا ان اللہ فقیر ونحن اغنیائ} اس کا شانِ نزول مفسرین میں مشہور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقات کی ترغیب فرمائی تھی جس پر یہود نے یہ باتکہی یہ یقینی ہے کہ ان کا یہ عقیدہ نہ تھا بلکہ محض الزام کے طور پر کہا تھا کہ حضور کی ترغیب سے (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کا حاجت مند ہونا لازم آتا ہے مگر انہوں نے اس قضیہ شرطیہ کو صورۃ حملیہ میں کہا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی تقبیح فرمائی ۔ گو ان کا طور قضیہ شرطیہ کے کہنا بھی بوجہ لزوم تکذیب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قابلِ تقبیح ہے۔ مگر اس مقام پر اس کا ذکر نہیںفرمایا۔ صرف امر اول کی تقبیح پر اکتفاء فرمایا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا پیرایہ قبیح ہے۔ اگر کسی نے ایسا کیا اس س کی تاویل کریں گے کہ مقصود الزام ہے اور کہیں گے کہ انہوں نے آیت میں غور نہیں کیا ہوگا اور خاص کر جب یہ کہنا مخالفین کی زبان سے اپنے بزرگوں کو برا بھلا کہلانے کا سبب بن جائے اس صورت میں دوسری وجہ بھی ممنوع ہونے کی پائی جائے گی۔ قال تعالیٰ {ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدواً بغیر علم۔} اور سلف کلام میں ایسے عنوانات نظ سے نہیں گذرے۔ 
چونواں نادرہ 
در تحقیق خضاب اسود
فائدۃ فقہیۃ فی تحقیق فی حکم الخضاب الاسود
	استدل المجوزون بفعل الحسین بن علی رضی اللہ عنہ الذی رواہ البخاری فی باب مناقب الحسن والحسین عن انس بن مالک قال اتی عبید اللہ بن زیاد برأس الحسین فجعل فی طشت فجعل ینکت وقال فی حسنہ شیئا فقال انس کان اشبہھم برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  وکان(الحسینف) مخضوبا بالوسمۃ۱ھ۔
والجواب:
	عند المانعین بما فی الحاشیۃ وھٰذا عبارتہا ظاھرہ وان کان معارضا لقولہ علیہ السلام جنبوہ السواد لکن المعنی کان مخضوبا بالوسمۃ الخالصۃ والخضب بھا وحدہا لا یسود الشعر فاندفع التعارض بینھما السواد البحت او کون السواد غالباً علی الحناء لا بالعکس ومنشأ الشریعۃ بنھیہ ان لا یلتبس الشیب بالشباب والشیخ بالشاب علا ان الحسین کان غازیا شہیدا فالخضاب بالسواد جائز فی الجہاد صفحہ ۵۳جلد۱ باب ھجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہؓ الی المدینۃ۔ 
پچپنواں نادرہ

Flag Counter