Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

394 - 756
فائدہ:
 	 بعضے لوگ فطرۃ ای کسی حالت کے غلبہ سے سے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ قانون شرعی سے غیر مکلف تو نہیںہوتے مگر بورے باہوش وباخبر بھی نہیں ہوتے اس لئے ان سے بعض احکام میں غفلت ہو جاتی ہے وھو معنی ما قال الحفنی وان لم تقع مھم عبادۃ اور باوجود مکلف ہونے احکام میں کوتاہی کرنا ظاہر ہے کہ گناہ ہے تو یہ کہان بھی صحیح ہے کہ ان سے گناہ کا کام بھی ہوتا ہے پس ایسے گناہ ان سے ہو سکتے ہیں نہ وہ گناہ جو بلا واسطہ گناہ ہیں جیسے زناوسرقہ وشرب خمر وغیرہا وھو معنی ما قال العزیزی لم یتعمد والذنوب وھو حاصل الارجاع الذی قلت ۔ ظاہریہ ہے کہ حدیث میں ایسے ہی لوگ مراد ہیں اور اطفال غیر مکلفین کا مراد ہونا بعید ہے کیونکہ قانون شرعی سے ان میں تو مواخذہ کا احتمال ہی نہیں اسلئے وہ محل سوال ہی نہیں بخلاف ان مذکورین کے کہ بوجہ مکلف ہونے کے مواخذہ کے مستحق ہیں اس لئے آپ نے ان کے متعلق درخواست عدم مواخذہ کی فرمائی کیونکہ ایسے لوگوں کو پابندی احکام میں سخت اہتمام کی حاجت ہے اور ایسے شدید اہتمام پر دو ام عادۃً متعسر ہے اگرچہ متعذر نہیں آپ نے ان کے تعسر پر نظر فرما کر شفاعت عدم مواخذہ کی فرمائی جو قبول ہو گئی ۔ اسی سنتِ نبویہ والٰہیہ کے موافق شیوخ مربین بھی ایسے لوگوں کے ساتھ معاملہ عفو وصفح کا کرتے ہیں جن کی نسبت معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کی قوت فکریہ ضعیف ہے، اگر اس کا استعمال کرنا چاہیں تب بھی غفلت ہو جاتی ہے تو گو معذور نہیں مگر کالمعذور ہیں پس یہ لوگ عدیم العقل تو نہیں مگر سلیم العقل بھی نہیں بلکہ سقیم العقل یا عقیم العقل ہیں جن کی تعبیر کے لئے عرف و محاورہ میں بلہ کا لقب مناسب ہے۔
فائدہ:
	اگر اس حدیث کو حدیث ذروا العارفین الخ کے ساتھ ملا لیا جائے جو کہ حرف ذال کیاول حدیث ہے تو جن لوگوں کی حالت خلاف ظاہر ہے ان کی سب اقسام اور ان اقسام کے احکام کی کافی تحقیق معلوم ہو سکتی ہے۔ واللہ اعلم
ترپنواں نادرہ
 در طریق جواب الزامی
سوال:
	 اور ایک امر یہ ہے کہ مرزا نے حضرت مسیح علیہ السلام اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اوپر طعن وتشنیع بہت کیا ہے اور آخر میںیہ فقرہ لکھدیا ہے کہ میں تو اپنے عیسیٰ ؑکو جو نبی تھے یا حضرت حسینؓ وعلی ؓکو جو ہمارے ہیں نہیں کہا ہے بلکہ عیسائیوں کے مسیح کو جس نے خدائی کا دعوٰی کیا ہے اور جس کا قرآن میں ذکر نہیں ہے کہا ہے اور شیعوں کے حسن اور علی کوکہا ہے ۔ چونکہ عیسائیوں نے ہمارے حضرت کو اور شیعوں نے ہمارے خلفاء ثلاثہ کو بہت برا کہا ہے اس وجہ سے  ہم بھی ان کے مسلمہ وموضوعہ بصفات موصوفہ بخیال ان کے کو کہا ہے۔ آیا ایسا پیرایہ اور حیلہ کر کے حضرت حسین ومسیح وعلی علیہم السلام پر کسی قدر حملہ جائز ہے۔ یا قطعی نا جائز ہے اگر کوئی الزام ان پر دیا جائے تو اس کی کیا صورت ہے ، بعض لوگ کہتے ہیںکہ عیسائیوں کے مقابلہ میں بحق مسیحؑ علماء سلف وخلف نے ایسا جملہ کیا ہے۔ اور علماء اہل السنۃ نے بمقابلہ شیعان کے برتاؤ کیا ہے۔ یہ کہاں تک صحیح ہے؟

Flag Counter