Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

392 - 756
یوم القیٰمۃ (خط) عن علی رضی اللہ عنہ 
ترجمہ :
	 ایسے عارفین کوجو کہ میری امت میں ہوں گے (ان کے حال پر چھوڑ دوں جن کے ساتھ عالم غیب کی باتیں کی جاتی ہیں ۔ (مطلب یہ ہے ہ ان کو اسرار غامضہ مکشوف ہوتے ہیں) نہ ان کو (اپنے فتویے سے) جنت میں نازل کرو اور نہ دوزخ میں (یعنی نہ ان پر جفتی ہونے کا حکم کرو نہ ناری ہونے کا مراد یہ کہ اگر وہ ان اسرار کے ساتھ تکلم کریں اور غموض کے سلب سمجھ میں نہ آویں اور ظاہراً خلافِ شرع معلوم ہوں تو بے سمجھے نہ ان کے معتقد ہوں اور ظاہراً خلاف شرع ہونے کے سبب ان کی تضلیل کرو۔ بلکہ ان کا معاملہ خدائے تعالیٰ کے سپرد کرو) حتی کہ الہ تعالیٰ ہی قیامت کے روز ان کا فیصلہ فرمائے گا۔ 
فائدہ:
	اور بعض اوقات ان کے بعض افعال بھی جو ان ہی اسرار کو مکشوفہ غامضہ پر مبنی ہوتے ہیں اہلِ ظاہر کی سمجھ میں نہیں آتے جیسے حضرت خضر علیہ السلام کے واقعات قرآن مجید میں مذکور ہیں گو شرائع میں ایسے مبانی کے اعتبار وعدم اعتبار میں اختلاف ہو سکتا ہے اور اس غوض کے سبب بعض اوقات وہ اقوال وافعال خلافِ شرع معلوم ہوتے ہیں تو اس حدیث میں ان کے ساتھ معاملہ کرنے کا طریق بتلایا گیا ہے نہ ان کو ولی اور نہ جنتی سمجھو اور نہ ان کوگمراہ اور دوزخی سمجھو بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ کے حوالہ کرو اور اس معاملہ میں چند قیدیں ہیں ایک یہ کہ دلیل اجمالی سے ان کا عارف ہونا معلوم ہو جائے جیس لفظ عارفین میں اس طرف اشارہ ہے اور وہ اجمالی دلیل اہلِ قلوب سلیمہ کا ان کے اندر ذوقاً نور قبول کا ادراک کرنا اور اس ادراک کے سلب ان کے ساتھ بے ادبی نہ کرنا اور ان کے اقوال وافعال پر سختی سے نکیر نہ کرنا ہے ورنہ اگر اس اجمالی دلیل سے بھی ان کا عارف ہونا معلوم نہ ہو تو ان کے لئے یہ حکم نہیں ہے بلکہ ایسے اقوال وافعال پر سختی سے انکار کیا جائے گا اور اس قائل وفاعل پر گمراہی واستحقاق زار کا فتوی دیا جائے گا اور ان اقوال وافعال میں تاویل نہ کی جائے گی ۔ دوسیر قید یہ ہے کہ دلیل تفصیلی سے ان کا عارف ہونا معلوم نہ ہو اور دلیل تفصیلی یہ ہے کہ جو علماء ومشائخ علوم ظاہر وباطن کے جامع ہیں وہ ان کو ظنا مقبول سمجھتے ہیں ورنہ اگر اس تفصیلی دلیل سے ان کا عارف ہونا معلوم ہو تو ان کے لئے بھی یہ حکم نہیں ہے بلکہ اس صورت میں ان پر مقبولیت واستحقاق جنت کا فتویٰ دیا جائے گا اور ان اقوال وافعال میںتاویل کی جائے گی جیسھ اس شان کے بہت اولیاء امت میں گذرے ہیں۔ حدیث انتم شھداء اللہ فی الارض ونیز قصہ خضر علیہ السلام جو قرآن مجید میں مذکور ہے اس کی کافی دلیل ہے اور ایک قید یہ ہے کہ ان کا کوئی عذر شرعی بین نہ ہو جیسے اختلال عقل ورنہ ان کے لئے مرفوع القلم ہونے کا اور اس عذر کے طاری ہونے سے قبل کی حالت کا اعتبار کرکے عدالت وافسق کا فتویٰ دیاجائے گا پس کسی قسم کا فتویی دینے سے ممانعت ایسے شخص کے حق میں ہے جس میں دونوں احتمال ہیں اس لئے احتمال صلاح پر مردودیت کا فتویٰ نہ دیںگے اور احتمال فساد پر مقبولیت کا فتوی نہ دیں گے بلکہ سکوت اختیار کریں گے اور بعض اوقات اس عذر شرعی کے بین یا غیر بین ہونے میں ایک غلطی ہوجاتی ہے اور وہ غلطی یہ ہے کہ بعض اوقات عقل میں اختلال ہوتا ہے جو اس سالم ہوتے ہیں جیسے بہائم کہ سلیم الحواس ہوتے ہیں مگر عاقلم نہیں ہوتے بعض اہلِ ظاہر سلامتی حوس کو سلامتی عقل سمجھ کر دھوکہ کھاتے ہیںاور ان کو غیر معذور سمجھ کر ان کو گمراہ سمجھتے ہیں اس لئے اس میں سخت احتیاط کی ضرورت ہے اور بعض لوگ اس کے مقابل دو سری غلطی کرتے ہیں کہ باوجود کسی قسم کے احتمال صلاح وعذر نہ ہونے کے خلافِ شرع لوگوں کے معتقد ہو کر ایسے اقوال وافعال میں ان کا تباع کر کے اپنا ایمان خراب کرتے ہیں پس حدیث میں دونوں جماعتوں کیاصلاح ہے اور سہل معیار اس حدیث 
Flag Counter