Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

39 - 756
نوٹ :
اتفاق سے اس کا جواب مدت کے بعد لکھا گیا مگر مفید ہونے کے سبب نقل کرلیا گیا وہ یہ ہے:
الجواب:
 وقف کے متعلق مستقل مضمون شائع کرنے کی تو اب اس لئے ضرورت نہ تھی کہ وہ کوشش گورنمنٹ میں کامیاب اور مسلم ہوگئی، چنانچہ اس کا اجرأ موافق فقہ حنفی کے ہوگیا، البتہ اس کے متعلق اور بعض ضروری امور قابل لکھنے کے ہیں، ایک تو یہ کہ خط سوال میں جو شرائط تجویز کی گئی ہے (فی قولہ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ہوالی قولہ تو ناجائز ہوگا) واقعی یہ واجب الرعایت ہے، مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ا گر اس نیت سے کیا تو وہ قانوناً نافذ نہ ہوگا، بلکہ معنی یہ ہیں کہ خود واقف پر واجب ہے کہ ایسی نیت سے وقف نہ کرے، ورنہ گناہگار ہوگا اور ثواب سے محروم رہے گا گو نافذ ہوجائے، حاصل یہ کہ ایسا کرنا دیانتاًناجائز ہے،مگرقضائً جائز ہے،جیسا فقہاء نے تفضیل بعض اولاد علی البعض فی العطاء میں اس کی تصریح فرمائی ہے۔دوسرا امر یہ کہ اس شرط کے ساتھ ایک اور شرط بھی ہے، جسکی رعایت اس سے زیادہ فرض ہے۔وہ یہ کہ اس وقف کا باعث واقف کا یہ عقیدہ نہ ہو کہ وہ میراث کے منصوص حکم کو مضر اور سبب خرابی جائداد ونافع ترقی قومی سمجھتا ہو،جیسابعض ہوا پرستوں کا اس وقت خیال ہے اور یہ شرط پہلی شرط سے زیادہ اس لئے ہے کہ شرط سابق کا خلاف تو صرف فساد نیت ہی ہے جو محض ایک معصیت ہے اور اس شرط کا خلاف فساد اعتقاد ہے اور فساد بھی اس درجہ میں کہ منصوص قطعی کو خلاف حکمت سمجھنا اور یہ کفر ہے ۔
چنانچہ استاذی مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ابلیس کے کفر کی وجہ یہی اعتقاد حکم حق کو خلاف حکمت سمجھنے کا ہے اور اسی لئے مولانا مرحوم کے زمانہ میں ایک مدعی خیر خواہ قومی کی رائے اس وقف علی الاولاد کی ترجیح علی المیراث کے بارہ میںایک رئیس نے بغرض تحقیق مولانا کی خدمت میں بھیجی تھی تو مولانا نے اس بناء خالص پر اس پر عمل کرنے کو حرام اور اس بناء کو کفر فرمادیا تھا،اب قریب زمانہ میں بھی جن لوگوں کا ذہن بعض محرکین کی اس منشاء کی طرف پہنچ گیا، انہوں نے ایسی تحریرات پر دستخط نہیں کئے اور جن کی نظر محض اس کے مسئلہ شرعیہ ہونے پر مقتصر رہی، انہوں نے دستخط کردئیے۔یہ گفتگو تو اس وقف کے متعلق تھی ،باقی خط سوال میں جو میعاد کے بارہ میں لکھا ہے، اگر اہل اسلام ادب کے ساتھ حکام سے اس کے مرتفع کرنے کی درخواست کریں تو مصلحت ہے ،لیکن اس مضمون میں کاتب خط کا یہ خیال قابل ترمیم ہے کہ وہ حقوق کے لئے شریعت میں کوئی میعاد سمجھے ہوئے ہیں،سو شریعت مطہرہ میں جو حق بینہ یا اقرار یا نکول سے حاصل یہ کہ حجت شرعیہ سے ثابت ہوجائے، اس میں کوئی میعاد نہیں اور بعض کتب میں جو پندرہ سال یا کم وبیش لکھ دیاہے ،سو اس کے یہ معنی نہیں کہ ثبوت کے بعد صرف انقضاء میعاد مسقط حق ہے ،بلکہ مطلب یہ ہے کہ غالباً اتنی مدت کے بعد پورا ثبوت دشوار ہے ،ورنہ ثبوت کے بعد پھر احیاء حق کا یقینی ہے اور مثل درخواست متعلق ارتفاع میعاد کے ایک اور درخواست بھی بہت ضروری ہے، وہ یہ کہ بہت مسائل میں شرعاًحاکم مسلم کا فیصلہ شرط ہے جس کو قضاء قاضی سے تعبیر کیا جاتا ہے ،پھر کتاب القضاء میں اس قاضی کے شرائط میں سے اسلام کو کہا ہے گواس کا تقررحکام غیر مسلم کی طرف سے ہو ۔
در مختار ورد المحتار میں اس عموم کی تصریح ہے جیسے مفقود، یعنی بے نشان شخص کی زوجہ کے نکاح اوّل کے فسخ میں یا خیار بلوغ کی بناء پر فسخ کر نے میں اور بہت مسائل میں ،سو اگر حکام سے یہ درخواست کی جائے کہ وہ ہر ضلع یا ہر تحصیل میں علماء اہل اسلام کے مشورہ وانتخاب سے ایک عالم متدین ومتیقظ بنام قاضی محض ایسے مقدمات کی سماعت کے لئے مقرر کردیں اور اس کی تنخواہ کا یہ انتظام کردیا جائے کہ مسلمان زمیںداروں 
Flag Counter