Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

40 - 756
سے مالگزاری کے ساتھ مثل دوسرے ابواب مدارس وسڑک وغیرہ کے کچھ مختصر سی رقم اضافہ کرکے اور وصول کرلی جائے تو مسلمانوں کو ایسے معاملات میں بہت آسانی ہوجائے ،ورنہ بعض مواقع پر تو تنگی پیش آتی ہے، جیسے احقر نے زن مفقود میں ایک جگہ فتویٰ لکھا کہ بعد انقضا ء میعاد مقرر عند الامام مالکؒ کے حکام سے یہ درخواست کرو کہ وہ خاص اس مقدمہ کی سماعت کا اختیار کسی عالم کو دیدیں اور وہ عالم یہ کہدے کہ میری رائے میں وہ مفقود مر گیا ہے، پھر اس کہنے کے بعد وہ عورت عدت وفات کی پوری کر کے نکاح ثانی کرلے، چنانچہ ان لوگوں نے پھر اطلاع دی کہ ہم نے حاکم ضلع سے کہا تھا، انہوں نے جواب دیا کہ ہم مذہبی معاملات میں دخل نہیں دیتے تو دیکھئے کیسی تنگی پیش آئی اور بعض مواقع میں ظاہراً تو تنگی نہیں، مگر شرعاً تنگی ہوتی ہے ،مثلاً خیار بلوغ میں ایک حاکم غیر مسلم نے نکاح اوّل کے فسخ ہونے کا حکم دے کر نکاح ثانی کی اجازت دے دے تو ظاہرً کارروائی ہوگئی، مگر شرعاً یہ کارروائی معتبر نہیں ہوئی یعنی اس سے وہ نکاح اوّل فسخ نہیں ہوااور نکاح ثانی صحیح نہیں ہوا تو تمام عمر ناجائز ہمبستری کا گناہ زوجین کو رہا۔ اگر مثل کوشش مسئلہ وقف علی الاولاد کے اس میں بھی کوشش کریں تو یہ اس سے زیادہ ضروری ہے، کیونکہ اس میں تو بہت سے بہت وقف علی الاولاد کا انسداد ہوجاتاہے، سو خود یہ وقف ہی ضروری نہیں تو کوئی حرج شرعی نہ تھااور یہاں تو حرام وحلال کا قصہ ہے ،جو بہت ہی نازک ہے، اس میں شرعی حرج ہے ،پھر وقف کی ضرورت علاوہ اس کے خفیف ہونے کے تمام قوم کے لئے عام نہیں، صرف اہل ثروت کے ساتھ مختص ہے اور اس کی ضرورت شدید بھی ہے، جیسا کہ مذکور ہوا پھر تمام قوم کو عام، اس لئے اس کا اہتمام بہت زیدہ موجب ثواب ہوگااور اس کا آسان طرق یہی ہے کہ اہل قلم اس کی مصالح کو ظاہر کریں اور پھر درخواست لکھ کر اس پر کثرت سے دستخط کرا کر پیش کریں۔ گورنمنٹ کی شفقت اور رعایا کی بہی خواہی سے امید ہے کہ وہ ضرور ایسے ضروری معروضہ پر توجہ فرماوے گی۔   ۱۹ ج ۲ ۱۳۳۵ھ
اٹھائیسواں غریبہ
درتوجیہ زیارت کعبہ حسناء بعضے اولیاء را
سوال :
بابت استقبال قبلہ شامی وبحرالرائق وطحطاوی بر مراقی الفلاح وباب ثبوت النسب در مختار وشامی وغیرہ معتبرات فقہیہ سے جو جواز آنے بیت اللہ شریف کا واسطے زیارت اولیاء اللہ کے بلکہ طواف اولیاء کرنے کے ممکن ومنجملہ کرامات ہونا لکھا ہے اور روض الریاحین امام یافعی وغیرہ میں وقوع اس کا اور دیکھنا ثقات ائمہ وعلما ء کا اس کرامات کو منقول ہے، اس کوغیر مقلدین لغو وغلط امر کہتے ہیں، ان کا قول وخیال یہ ہے کہ کعبہ ایسا معظم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اشرف الخلوقات تھے ،اس کی تعظیم طواف سے کی، وہ دوسرے اپنے سے کم درجہ کی زیارت وطواف کے لئے جائے، یہ قلب موضوع وناممکن امر ہے ،ہاں اگر قرآن وحدیث سے یہ امر مدلل کیا جائے تو قابل تسلیم ہوسکتا ہے ،لہٰذا علماء احناف کے جناب میں گزارش ہے کہ عقیدے کو نصوص قرآن واحادیث سے یا بالاستنباط از آیات واحادیث مدلل وثابت فرماکر کتب فقہ حنفیہ وروض الریاحین وغیرہ تالیفات ائمہ سلف کو دھبّہ غیر معتمد ہونے سے بچائیں اور جہاں تک جلد ممکن ہو جو اب سے سر فراز فرماویں اس امر کی نسبت سخت نزاع درپیش ہے۔
الجواب:

Flag Counter