Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

379 - 756
الخ اور رویا صالحہ سب اس میں داخل ہے ۔ ۱ھ ۔
	اشارہ الی ان التفسیر لیس للتخصیص بل للتمثیل وفی الحدیث للبخاری قالوا وما المبشرات قال صلی اللہ علیہ وسلم ھی الرؤیا الصالحۃ وزاد ما لک یراھا الرجل المسلم او تری لہ وفی الحدیث المتفق علیہ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من رانی فی المنام فقد رانی فان الشیطان لا یتمثل فی صورتی الحدیث ثم قیل معناہ من رانی عی صورتی التی انا علیھا وقیل معناہ من رانی بأی صورۃ کانت تلک الصورۃ مثال لروحہ المقدسۃ فان الشیطان لا یتمثل بمثال علی انہ مثال لہ صلی اللہ علیہ وسلم (سید علی المشکوۃ) یہاں چند امور ہیں۔
اول :
	 آیات اپنے عموم سے اور حدیث اپنے خصوص سے غیر نبی کے رویا صالحہ کو مطلقا مبشر ہونے کی حیثیت سے معتبر بتلاتی ہے اور غیر نبی کی قید اس لئے ہے کہ نبی کا رویا ثبوتاً وحی قطعی ہے اور دلالۃ بھی تعبیر جازم کے بعد ۔ اور تعبیر غیر جازم کے ساتھ ظنی وملحق برویاہ رویا غیرہ اذا قررہ النبی۔اور صالحہ کی قید اس لئے ہے کہ تحزین من الشیطان سے احتراز ہو جائے جس کا علاج وقت انتباہ تین بار تعوذ اور ؟؟؟؟دینا اور کروٹ بدل کر سورہنا ہے اور اس پر عدم ضرر کا وعدہ ہے اور خود رویا کی قید اس لئے ہے کہ حدیث النفس سے احتراز ہو جائے۔ 
ثانی :
	 اور اس رویا کی بالخصوص حدیث ززیادہ معتبر بتلاتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رویت مبارک سے کسی کو شرف حاصل ہو۔
ثالث:
	پھر حدیث میں رویا صالحہ کے درجہ مکا بھی جو شریعت میںہے تعیین کرتی ہے یعنی نہ وہ محض از قبیل اوہام واضغاث احلام ہے جیسا کہ بعض فلاسفہ اہلِ تفریط کا خیال ہے ورنہ لسانِ شارع میں اس کا لقب مبشر نہ ہوتا اور نہ وہ حجت فی الاحکام اور مثبت حلال وحرام ہے جیسا کہ اکثر عوام وبعض خواص کالعوام اہلِ افراط کا مقال ہے ورنہ لسانِ شارع میں اس کی مبشریت پر اقتصار نہ ہوتا اور اسی افراط شائع کیاصلاح کی غرض سے یہاں خوب کے جواب میں اکثر اس شعر کے لکھنے کا معمول ہے   ؎
نہ شبنم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم

چو غلام آفتابم ہمہ ز آفتاب گویم
	تو حاصل اس درجہ کا رحمت سے تقویت رجاء ہے یعنی امرمبشر بہ کے حصول حالاً یا مآلاً کی کہ وہ ی اس کی تعبیر ہوتی ہے امید ہو کر مسرت پیداہو اس لئے برا خواب ذکر کرنے سے نہی آئی ہے کہ شاید کوئی اسکی تعبیر دے دے جو سبب ہو جائے قنوط کا رحمت حق سے جو کہ ممنوع ہے۔ جیسا اسی بناء پر فال صالح کی محبوبیت اور طیرہ کی تاثیر کی نفی لا طیرہ میں وارد ہے۔
رابع:
	 نیز حدیث میں اس کے تبشر کو عام بتلا رہی ہے خواہ خود صاحبِ معاملہ دیکھے یا صاحبِ معاملہ کے حق میں کوئی دوسرا مؤمن دیکھے ۔

Flag Counter