Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

377 - 756
ترقی باطن کی رک گئی غرض) اس طرح سے اپنی جان پر نوحہ کرتا تھا کہ میں اپنے سلطان کا مخالف کیوں ہوگیا (اور اب) وہ ہوش میں آیا اور استغفار کیا (اور) توبہ کے ساتھ دوسری چیز کوبھی منضم کیا(ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مراد اس سے خود بادشاہ سے معاف کرانا ہے چونکہ معاف کرنے میں ذکر بھی کرنا ضروری ہے اور وہ ایسی حالت میں کہ باطن ہی میں خطا ہوئی ہے سخت دشوار ہے۔ شاید مولانا نے عدم ذکر سے اس کی تعذر ذکر کی طرف اشارہ کیا ہو کہ تعذر سبب ہو جاتا ہے عدم ذکر کا واللہ اعلم۔ آگے مولانا فرماتے ہیں کہ جو در د کہ وحشت ایمان سے ہو ( اے مخاطب اس پر) رحم کر (یعنی وہ واجب الرحمن ہے) کیونکہ وہ درد لا علاج (یعنی متعسر العلاج وبطیٔ البرد) ہوتا ہے (وھذا مشاہد ایمان سے مراد ایمان کامل یعنی عرفار وفیضان اور وحشت سے مراد وحشتے کہ در مقدمۂ ایں ایمان بود یعنی از سلب ایں عرفان وفیضان باشد اور یہ وحشت اس قدر شدید ہوتی ہے کہ اگر کوئی شیخ کامل فوراً دستگیری نہ کرے تو اختلاف طبائع سے توغم خفیف ہو کر حجاب شدید ہوتا چلا جاتا ہے حتی کہ بعضو ں نے ایمان ہی کے جواب دے دیانعوذ باللہ من الحور بعد الکور تفصیل اقسام حجاب کیاحقر نے فوائد الفوائد سے تعلیم الدین میں لکھی ہے سج کا اول مرتبہ اعراض اور آخری مرتبہ عداوت ہے، اور کبھی اگر غم خفیف نہ ہو تو خود کشی وغیرہ کی نوت آجاتی ہے اور علاج اس کا صرف شیخ کامل کی تدبیر مناسب ہے، آگے بعد ذم عجب بالکمال کے مذمت عجب بالمال وغیرہ اور فقدان اسباب عجب کے قابل قدر ہونے کا مضمون ہے پس فرماتے ہیں کہ) بشر کا جامہ (یعنی سامان دنیا) درست ہی نہ ہو (کم سامانی میں رہنا اچھا ہے کیونکہ) وہ جہاں صبر( کی حالت) سے (یعنی کم سامانی سے کہ وہ محل صبر ہے) چھوٹا فوراً صر مقام (یعنی علو) ڈھونڈنے لگتا ہے (اور مراد اکثر بشر ہیں اور) بشر کے پاس پنجہ اور ناخن ہی نہ ہو (یہ ایسا مضمون ہے جیسے ہمارے محاورات میں بولتے ہیں خدا گنجے کو ناخن نہ دے) کیوںہ وہ (پھر دین کا خیال کتا ہے نہ راستی کا آدمی بلا میں رہا ہوا اچھا ہے (کیونکہ نفس ما سپاسِ نعمت ہے اور گمہرا ہے نفس کافر(عن الکفران خود (یعنی بے سامان )ہی(صاحبِ نفس کو) امان نہیں دیتا (اور اوپر سے) جب روٹی سے بھی بے فکر ہو جائے تب تو پورا سر کش ہوجاتا ہے (پس آدمی (بلائے فقر وغیرہ میں) مبتلا اچھا رہتا ہے کیونکہ وہ(اس حالت میں) زار اور عاجز اور مضطر رہتا ہے(اور عجز و زاری کے ہوتے ہوئے مفاسد لازمہ ومتعدیہ سب کم ہوتے ہیں بخلاف اجتماع اسباب طغیان کے اس سے طغیان اکثر مسبب ہو جاتا ہے۔
من    قصہ کوتہ کن کہ رائے نفس کور      الی        وانگہے از ذلت وعجز ونیاز 
	قصہ کوتاہ کر کہ نفس کور کی رائے اس (شہزادہ ) کو گور کی طرف لئے گئی(یعنی مرگیا) شاہ صاحب محو (اور سکر) سے ہستی (اور صحو) کی طرف آیا تو (دیکھا کہ) اس کے خشم مریخی نے اس کا وہ خون کیا تھا (معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ کو غصہ آنے کے بعد کوئی حالت غائب ہوگئی جس میں غصہ کے آثار کی طرف التفات نہیں ہوا پھرافاقہ کے بعد معلوم ہوا کہ میرے غصہ کے اثر سے مرگیا ۔ آگے یہی مضمون بلفظ دیگر ہے کہ) جب ترکش کو اس بے نظیر نے دیکھا تو اپنے ترکش سے ایک چوب تیر کم دیکھا (دل میں) کہنے لگا کہ وہ تیر کہاں ہے اور حق تعالیٰ سے جستجو کیارشادہوا کہ اس (شہزادہ کے حق میںوہ تیرا ہی تیر ہے (میرے ذوقت میں اس کی تقریر ہے کہ ہر کیفیت باطنی قبل ظہور کے شدید ہوتی ہے اور بعد ظہور کے خفیف اور ظہورکبھی اظہار سے ہوتا ہے کبھی بلااظہار اس کے اثر کی نافذ ہوجانے سے پس یہاں جو شاہ کو غصہ پیدا ہوا تھا اس کے بعد غلبۂ حال ہونے سے تو اس بقاء وزوال کی طرف التفات نہیں ہو جب شہزادہ کے مرنے کے قریب اس حالت سے افاقہ ہوا تو نفس کی طرف التفات کرنے سے غصہ نہ پایا تعجب ہوا کہ میں نے گود ل میں شہزادہ کی شکیات کی مگر زبان سے ظاہر نہیں کیا پس اظہار تو ہو نہیں پھر کیا صورت اس غصہ کے نہ رہنے کی ہوئی۔ پھر الہام سے معلوم ہوا کہ اس کا ظہور دوسری طرح ہوگیا کہ اس کا اثر نافذ ہوگیا جس سے شہزادہ مرنے کو ہے اور چونہ یہاں شاہ
Flag Counter