Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

376 - 756
	 (یہ حکمت حرمتِ خرم کی قرآن مجید سے مستنبط ہو سکتی ہے۔ قال تعالیٰ {انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر الاٰیۃ }اور عداوت اور بغضاء کا منشاء اکثر خود بینی ہے کہ اپنے کو اوروں سے زیادہ مال کا مستحق سمجھے یا جاہ کا ومثل ذلک۔ آگے ایک شبہ کا جواب ہے وہ یہ کہ بعض اوقات اہل اللہ سے بھی کلمات موہمہ عجب ودعوی خواہ از قبیل سطحیات یا کسی خاص کے خطاب میں صادر ہوتے ہیں اس کی کیا وجہ۔ جواب دیتے ہیں کہ منشا دعوے کا ہمیشہ مستی ہوتی ہے لیکن تم اپنی مستی عجب وکبر پر ان کی مستی حال یا مستی غیرت دین کو قیاس مت کرو۔ دونوں میں فرق ہے چنانچہ اسی کوفرماتے ہیں کہ) جو شخص اپنی (خودی کے) ساتھ شراب (انانیۃ کی) پیتا ہے وہ ماخوذ ہے ( اور ) ایسا شراب خوار ذلیل اور مرتد (طریقت) ہے (جیسا شہزادہ شیخ سے پھر گیا اور) جو شخص اس کے ساتھ (یعنی مع الحق ہو کر) شراب (انانیۃ) پیتا ہے اس کو حلال ہے اور جو شخص بدون اس (کی معیت) کے دعوی (انانیۃکا) کرے اس کے لئے وبال ہے عبر عن الاخبار بالانشائ۔ مطلب یہ کہ اہلِ اللہ کا دعوی نفس سے نہیں ہوتا بلکہ وہ ناطق بالحق ہوتے ہیں بمنزلہ حاکی عن الحق کے کما ورد کنت سمعہ وبصرہ الخ جب وہ اس( کی معیت) کے ساتھ شراب (انانیت کی) پیتا ہے جام حق سے ( وہ بزبانِ حال یوں کہہ رہا ہے کہ) میں آنکھ کھولتا ہوں (اور ) اس (محبوب) کا جمال دیکھتا ہوں (یعنی مورد تجلیات حق ہو جاتا ہوں اور) اس کے بعد اپنے سے بالکلیہ منقطع ہو جاتا ہوں (یعنی فانی فی الحق ہو جاتا ہوں اور شراب پینے سے (یعنی دعوی انانیت سے) میرا حاصل یہ (مقام) ہے (مطلب وہی جو ابھی لکھا گیاکہ میرے دعویٰ انانیت کا حاصل اور منشایہ ہے کہ میں مورد تجلیات وفانی ہوں آگے اس مرتبہ کی ترغی دیتے ہیں کہ) اے شخص کہ اپنے سے منقطع ہونا چاہتا ہے تو کب تک اس جان ودل کی قید میں ہے جان محبوب کے سپرد کر دے۔ اے میری جان تاکہ تو میرے یار دل رنجان کا جمال دیکھ (دل رنجان سے مراد ہے رنج عشق دہندہ دل اور) دل دلدار کو دے دے اور آزاد ہو جا( اور) اس کاغم کھایا کر اور اس سے خوش رہ (حاصل یہ کہ منقاد للحق بدرجۂ فنائرہ ۔
	 آگے فرماتے ہیں کہ منقاد للنفس مت ہو یعنی) اپنے نفس کو اپنے اوپر غالب مت کر (اور) جلد اس کو (لذات دنیویہ کے) دودھ سے علیحدہ کر( مثل فطام طفل کے آگے یہ بتلاتے ہیں کہ دودھ سے مراد وہ ہے جس سے خود بینی کی مستی پیدا ہو خواہ مباح ہو مثل شیر وشہد کے یا غیر مباح مثل خمر کے۔ سب کو چھوڑ اول کوانھما کا ثانی کو مطلقاً یعنی) جو چیز (مرغوبات نفس سے) ہے وہ یقینا کچھ مستی رکھتے ہیںوہ شیر ہو خواہ خمر ہو خواہ انگبین ہو ( چنانچہ) گندم کی مستی کو جان لئے اے آدمی کہ اس نے آدم علیہ السلام کو نا واقف بنا دیا (پس یاد رآدمے واقلعہ مصرعہ ثانیہ مجہول باشد) انہوں نے گندم کھا لیا حلہ (بہشتی) ان سے علیحدہ ہوگیا (اور) خالد ان پر دشت اور صحراء ہوگیا (آگے پھر قصہ ہے کہ) اس (شہزادے) نے دیکھا کہ اس شربت (خود بینی لذیذ) نے اسکو بیمار کر دیا (اور) اور اس ماؤ من کا زہد کام کر گیا (اور اس کی روح جو مثل طاؤس کے تھی گلزار نزال میں مثل چغد کے ہو گئی ویرانہ مجاز (یعنی دنیا یا حالت متنزلہ) میں مثل آدم علیہ السلام کے وہ بہشت سے دور رہ گیا جو کہ زمیں میں کھیتی کے بیل کو چلاتے تھے (کما رواہ اھل السیر مطلب یہ کہ کیفیات روحانی سے علائق جسمانی میں آ گرا بس) وہ آنسو چلانے لگا ( اور اپنے نفس سے کہا) کہ اے چور ( جو میرے اندر چھپا ہوا تھا) اور اے معمار ( جس نے خیالاتِ فاسدہ کی تعمیر بنا کر کھڑی کر دی کذا فی الغیاث فی معنی ہندو ومعنی زاؤ) تو نے شیر کو (یعنی مجھ کو) دم گاؤ (یعنی علائق جسمانیہ) کا اسیر کر دیا اے نفس خبیث سروسخن (کہ تیرے اس کلام نفسانی میں کوئی گرمی ورونق نہ تھی) تو نے (اس) شاہ فریاد رس ( ودستگیر) کے ساتھ حفظ حق نہ کیا تو نے جال (بلائے زوال حال) کو اختیار کیا حرص گندم سے (یعنی لذت عجب سے) تجھ پر ہر گندم ایک کژدم ہوگیا۔ تیرے دماغ میں ماؤمن کی ہوا بھر گئی اپنے پاؤپر پچاس من کی قید دیکھ لئے (جس سے رفتار 
Flag Counter