Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

373 - 756
چاہئے کہ ان اشعار میں جو جبر کی مذمت کی گئی ۔ شاید کوئی تارک اعمال وعبادات یہ کہنا کہ میرا جبر محمود ہے مذموم نہیں اس لئے مولانا اگلئے شعر سے اس کا جواب دیتے ہیںجس کا خلاصہ یہ ہے کہ توغیر واصل ہے تیرا جب ہوگا مذموم ہوگا البتہ واصل ہونے کے بعد جب محمود نصیب ہو سکتا ہے۔ اسی کو ایک مثال کے ضمن میں بیان کیا ہے جس سے دونوں جبروں کے نتائج وآثار میں فرق بھی معلوم ہو جائے گا۔ (یعنی جب تک طریق وصول الی اللہ کو قطع نہیں کیا اس وقت تک جبر کو اختیار مت کرو کیونکہ ایسے وقت میں چونکہ غلبۂ مشاہدہ یقینا حاصل نہیں تو وہ جبر جبر مذموم ہوگا صرف نفس نے اپنے آرام کے لئے اس کو ایک بہانہ تجویز کیا ہے) جب تک اس (محبوب کے) ورود گاہ کو دیکھ لو (یعنی مقامِ مشاہدہ تک وصول نہ ہو جائیے)اس وقت تک مت سؤو (یعنی جبرِ اختیار مت کرو) دیکھو خبردار تم کہ کاہل وبے اعتبار ہو(کیونکہ مبتدی کا قائل جبر ہونا نفس کی کاہی سے ہوتا ہے اس لئے اسکا اعتبار نہیں) جب تک درخت میوہ دار کے نیچے نہ پہنچ جاؤ( کہ وہ مقام وصول ومشاہدہ ہے جس کا ثمرہ قرب وفیوض الٰہیہ ہیں) اس وقت تک مت سونا (یعنی جبر کو اختیار مت کرنا البتہ درخت مشاہدہ تک پہنچ کر اگر سورہو یعنی جبر اختیار کر لو تو مضائقہ نہیں کیونکہ وہ جبر دوسری قسم کا ہوگبا کہ محمود ہے اور مضر نہیں بلکہ موجب ترقی مراتب قرب ہے جیسا فرماتے ہیں) تاکہ (اس درخت کے نیچے سونے سے) ہر لحظہ ہواے فیض الٰہی شاخ کو ہلا کر تم پر میوہ افشانی کرے اور تمہارے سر پر نقل وزاد (مراتب قرب وعلوم واسرار) کو ریختہ کرے اور جبرِ مذموم ایسا ہے جیسا کوئی (منزل پر پہنچنے کے قبل) رہزنوں کے درمیان سو رہے ( تو وہ بوجہ اس کے کہ بے وقوف اس نے ایک کام کیا مثل مرغ بے ہنگام کے ہوگا اور) مرغ بے ہنگام امن نہیں پاتا (جیسا ولایت میں دستور ہے کہ بے وقوف اذان کہنے سے اس مرغ کو ذبح کر ڈالتے ہیں اسی طرح یہ شخص ہلاک ہوگا۔ 
بیالیسواں نادرہ 
در معنی اصطلاحات جمع وفرق وجمع الجمع 
آں یکے ماہے ہمی بیند عیاں

واں یکے تاریک می  بیند جہاں
واں یکے سہ ماہ می بیند بہم

ایں سہ کن نشستہ یک موضع بغم
چشم ہر سہ یازوگوش ہر سہ تیز

در تو آویزاں واز من در گریز
سحر غیب ست ایں عجب لطف خفی ست

بر تو نقش گرگ وبر من یوسفی ست
عالم ازہجدہ ہزار ست وفزوں

ہر نظر را نیست ایں ہجدہ زبوں
	(یہ مقولہ ہے مولانا کا واسطے تقریر مضمون بالا تفاوت اہلِ ادراک کے یعنی) ایک وہ شخص ہے جو چاند کو  صاف دیکھ رہا ہے (مراد ماہ سے تشبیہاً حق تعالیٰ ہیں اور بیند سے مراد مشاہدہ ہے جس کی تفسیر کئی بار گذر چکی ہے اور اس کو عیاں کہنا مجازاً ہے باعتبار اطمینان تام کے یعنی مشاہدہ وغلبہ بحق سے مشرف ہے اور خلق کی طرف اصلاً ملتفت نہیں) اور ایک دوسرا شخص وہ ہے جو عالم کو تاریک دیکھ رہا ہے (یعنی صرف مخلوق پر اس کی نظرالتفات ہے اس کو مرأۃ مشاہدہ انوار حق نہیں بنایا اور مصنوع سے صانع کی طرف توجہ منصرف نہیں کی گویا عالم اس کی نظر میں تاریک ہے) او ریاک تیسرا شخص وہ ہے جو تین چاند دفعۃً دیکھ رہا ہے (مراد اس سے وہ شخص ہے جو ایک حالت میں حق اور خلق پر نظر رکھتا ہے پس ایک ماہ تو حق تعالیٰ ایک ماہ خلق باعتبار مرأۃ حق کے ورنہ مدون مراٰتیۃ کے ابھی تاریک کہہ چکے ہیں ۔

Flag Counter