Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

369 - 756
المؤمنین) اور اس میں جو سمجھا ہوں یہ ہے کہ اس انتقال کی حقیقت اس صورتِ مثالیہ ذہنیہ میں ظہور ہے جس کے ذریعہ سے وہ لوگ حق تعالیٰ کو اس کے قبل دنیا میں پہچانتے تھے اور یہی تجلی ہے جس کے مذکورہ ہونے کا ہم نے اپنے اس قول میں وعدہ کیا تھا وہ قول یہ ہے ’’جس کا ذکر عنقریب حدیث میں آتاہے‘‘ اور تجلیات مثالیہ میں ایسا انتقال ایک  سے دوسرے کی طرف جائز ہے اور یہ صورتِ مثالیہ اگر چہ واحد بالشخص ہوگی لیکن ممکن ہے کہ ابصار مختلفہ میں حسبِ تصورات مختلفہ مختلف اطوار میں نظر آئے پس یہ اشکال واقع نہیں ہوتا کہ تصورات مختلفہ صورتِ متعینہ پر کیسے منطبق ہوں گے۔ خوب سمجھ لو اور (بجائے ادنیٰ صورت میں تجلی فرمانے کے) ایسی صورت میں تجلی نہ فرمانا جو ان کی پہنچانی ہوئی صورت سے اعلیٰ ہو اس وجہ سے ہے کہ اس سے امتحان کی حکمت حاصل نہ ہوتی۔ اس لئے کہ ہر مؤمن کا یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اعتقاد سے کم نہیں ہے اور یہ کسی کا بھی اعتقاد نہیں کہ میرے اعتقاد سے فوق بھی نہیں ہے پس اگر صورت اعلیٰ میں تجلی فرماتے تو اس کو یہ احتمال ہوتا ہک شاید تجلی ربانی ہو اور اس کی نفی نہ کرتا پس امتحان حاصل نہ ہوتا اور جب صورت ادنی میں تجلی فرمائی اور اس کا اعتقاد یہ تھا کہ وہ ادنی نہیں ہے اس لئے نفی کا حکم کر دیا خوب سمجھ لو اور جاننا چاہئے کہ میں نے اس جگہ حدیث کی شرح میں اصولِ قوم پر جو کچھ ذکر کیا ہے ان میں کوئی جزوقطعی نہیں۔ البتہ دوسرے علماء نے جو کچھ ذکر کیا ہے ان سب سے اقرب ضرور ہے مثلاً بعض نے کہا ہے کہ ادنی صورت میں تجلی کسی فرشتہ کا ظہور ہوگا اور اس کا بعید ہونا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد تاہم رب العالمین کا اس سے آبی ہونا ظاہر ہے اور غالباً تم اس تقریر سے ہمارے اس دعوے پر آگاہ ہوگئے ہو گے کہ جنت میںتجلی رؤیت ذات سے ہوگی اگرچہ اس کی کنہ کا ادراک نہ ہوگا اور موقف میں مثال ہے ہوگی جیسا ممتنع نہیں چنانچہ ارشاد ہے ولہ المثل الاعلیٰ اور مثل بمعنی مشارک فی الماہیۃ ممتنع ہے جیسا ارشاد ہے لیس کمثلہ شئی اور گو یہ مثال قدیم نہیں لیکن تشارک کامل کے سبب قدیم کا مرآۃ ہو جاتی ہے اور اس وقت ذہن کو وجود تغائر وتمائز کی طرف التفات نہیں ہوتا خوب بصیرت اور فکر سے کام لو تاکہ غلطی اور لغزش میں نہ پڑ جاؤ کیونکہ مقام بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہے۔ اور اسی حدیث کے متعلق وہ بات بھی ہے جو نووی نے کہی ہے کہ اس حدیث میں اس کی تصریح نہیں ہے کہ منافقین کو بھی اللہ تعالیٰ کی رویت ہوگی صرف حدیث میں یہ ہے کہ ایسی جماعت کو جس میں مؤمنین ومنافقین دونوں ہوں گے رویت ہوگی اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ سب ہی کو رؤیت ہو اور کتاب وسنت کے دلائل پر قائم ہیں کہ منافق کو حق سبحانہ وتعالیٰ کی رویت نہ ہوگی (جیسے ارشاد ہے کلا انھم عن ربھم یومئذ لمحجوبون اھ)اور جاننا چاہئے کہ حدیث سے ایک مسئلہ مہمہ مستنبط ہوتا ہے وہ یہ کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے یاسے شخص کو معذور رکھا جس نے حق کے ایسے وصوف کی نفی کی جس کی اس کو معرفت نہ تھی باوجودیکہ واقع میں وہ وصف مثبت تھا اسی طرح وہ شخص بھی معذور کہا جائے گا جو ایسے وصف کو ثابت کرے جس کی اس کو معرفت ہے گو وہ واقع میں منفی ہو کیونکہ جو نوں جگہ علت معذوریت کی مشترک ہے اور وہ علت تکلیف ہے۔ حسب العلم جیسا بعض مکاشفین نے تجلی روح کو تجلی حق سمجھ لیا امید ہے کہ معذور ہوں گے۔ اور بعض نے حضرت ابراہی علیہ السلام کے قول ھٰذا ربی کو اسی قسم کے عذر پر محمول کیا ہے ان میںسے عارف رومی رحمہ اللہ بھی ہیں۔ دفتر خامس کے چار خمس کے بعد شیخ محمد کے قصہ سے ذرا قبل اس قول میں   ؎
گفت ہذا ربی ابراہیمؑراد

چونکہ اندر عالم وہم اوفتاد
	اور ہمارے مشائخ میں سے حضرت شاہ عبد القادر دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اسی کو اختیار کیا ہے اور اگر چہ مجھ کو انبیاء علیہم السلام کے شان میںیہ پسند نہیں لیکن بعض اہلِ حق کا اس طرف جانا اس کے عذر محتمل ہونے کے لئے تو کافی ہے۔ واللہ اعلم 

Flag Counter