Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

368 - 756
کریں گے اور تتمیم فائدہ کے لئے میں اس حدیث کو مع اس کے بعض اجزاء کی توجیہ بنا بر اصول قوم کے ابوسعید خدری کے الفاظ سے نقل کرتا ہوں جبکہ اہلِ موقف سے کہا جائے گا ہر جماعت کو چاہئے کہ اپنے معبود کے ساتھ جائے اور اس حدیث آخر میں ہے کہ یہاں تک کہ جب کوئی باقی نہ رہے گا بجز ان لوگوں کے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے خواہ نیک ہوں یابد اس وقت رب العالمین ان کے پاس ایسی صورت میں تشریف لاویں گے جو اس صورت میں تشریف لاویں گے جو اس صورت سے ما بعد کے درجہ میں ہو گی جس میں پہلے دیکھا تھا (یعنی جس صورت سے پہلے معرفت حاصل تھی جیسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں اس طرح ہے کہ امت باقی ہر جائے گی جس میں منافقین بھی ہوں گے پس اللہ تعالیٰ ان کے پاس ایک ایسی صورت میںآویں گے جو اس کی اس صورت سے غیر ہوگی جس کیان لوگوں کو معرفت حاصل تھی یعنی اس سے قبل دنیا میں، پس میں نے جو دیکھنے کی تفسیر معرفت سے کی ہے وہ اس دلیل سے ثابت ہوگئی اوریہ رویت تجلی مثالی ہوگئی جیسا لفظ صورت کا ظاہر مدلول ہے) پھر ارشاد ہوگا تم کس چیز کے منتظر ہو ہر جماعت اپنے معبود کے ساتھ جائے وہ لوگ عرض کریں گے اے ہمارے رب ہم ( صرف آپ کے لئے) دوسرے لوگوں سے ایسی حالت میں جدا ہوئے کہ ہم کو ان کی طرف سخت احتیاج تھی اور ان کا ساتھ نہیں دیا  (پس اس وقت آپ کو چھوڑ کر کہا جائیں) حق تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے میں تمہارا رب ہوں (چونکہ اس تجلی میں حق تعالیٰ کو پہچانیں گے نہیں اس لئے) وہ لوگ کہیں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں تجھ سے ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔ دوبار یا تین بار ایسا کہیں گے یہاں تک کہ بعضے تو بالکل اس کے قریب ہو جائیں گے کہ (امرِ صواب سے) منقلب ہو جائیں (اور اس سے ہٹ جائیں بسبب امتحان شدید کے جو کہ جاری ہوگا۔ یہ نووی نے کہا ہے اور ان لوگوں کے انکار کی کہ تو ہمارا رب نہیں ۔ شاید یہ وجہ ہے کہ جس وصف سے حق تعالیٰ کیان کو دنیا میں معرفت حاصل ہے وہ بھی تجلی مثالی ہے جو اذہان مختلفہ میںاوضاعِ مختلفہ پر ہے اور مثالی ذہنی اس وقت کی تجلی مثلای محشری پر منطبق ہوگی نہیں جیسا کہ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد دال ہے فی ادنی صورۃ من التی رأوھا اور شیاد حکمت اس تغائر تجلی کیامتحان ہو جیسا خطابی ونووی سیاوپر مذکور ہوا ہے یعنی امتحان ان کے ایمان کا اور ان کے دعویٰ توحید کا اور ان کے اس قول کا کہ ہم لوگوں سے جدا ہوگئے تھے۔ پس اس امتحان کے لئے ان کے لئے ان کی صورتِ ذہنیہ سے مغائر صورت میں تجلی فرمائی اور اس کے ساتھ ان میں اس کا علم ضروری پیدا نہیں فرمایا کہ یہ بھی تجلی ربانی ہے۔ پس جب انہوں نے اس صورت کا انکار کیا تو ان کے دعویٰ توحید کا صدق ظاہر ہوگیا کہ انہوں نے جس کو غیر رب سمجھا اس کی ربوبیت کا انکار کر دیا اور شاید انقلاب عن الصواب کا سبب ان کے عقول پر اہوال کا غلبہ ہوا اس طرح کہ مستبعد نہ تھا کہ اس پر قیاس کر کے اس تجلی مثالی کا بھی انکار کر بیٹھیں جس کا ذکر عنقریب اسی حدیث میں آتا ہے) پھرارشاد فرمائیں گے کیا تمہارے اور رب تعالیٰ کے درمیان علامت ہے جس سے تم ان کو پہنچان ہو وہ کہیں گے ہاں پس ساق کو کھول دیا جائے گا پس کوئی ایسا شخص نہ رہے گا جو اللہ کو سجدہ کرتا ہودل سے مگر اس کو سجدہ کی توفیق ہو جائے گی۔ اور کوئی ایسا شخص باقی نہ رہے گا جو تقیہ اور ریاء سے سجدہ کرتا ہو مگر اللہ تعالیٰ اس کی کمر کو ایک تختہ کر دیںگے وہ جب بھی سجدہ کرنا چاہے گا فوراً ہی قفا کے بل گر پڑے گا (قاضی عیاض نے کہا ہے جیسا کہ نووی نے ان سے نقل کیا ہے کہ بعض نے کہا ہے کہ مراد ساق سے اس جگہ ایک نورِ عظیم ہے اور یہ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہو اہے ۱ھ میں (اشرف علی ) کہتا ہوں کہ ان لوگوں میں اس وقت اللہ تعالیٰ اس کے تجلی ربانی ہونے کا علم ضروری پیدا کر دیں گے اگر چہ اس کے قبل اس تجلی سے ان کو اس کی معرفت نہ تھی واللہ اعلم) پھر یہ لوگ سجدہ سے اپنا سر اٹھادیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنی ایسی صورت میں منتقل ہو چکے ہوں گے جس میں ان لوگوں نے ان کو اول بار (یعنی دنیا میں) دیکھا تھا (یعنی پہنچانا تھا) پھر فرمائیں گے میں تمہارا رب ہوں۔ وہ لوگ کہیں گے آپ ہمارے رب ہیں الحدیث (مسلم جلد۱ باب اثبات رویۃ 
Flag Counter