Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

367 - 756
توھمھم التجلی الروحی تجلیا ربانیا والظن انہ یعذر انشاء اللہ تعالیٰ وحمل بعضھم قول ابراہیم علیہ السلام ھٰذا ربی علی مثل ھٰذا العذر منھم العارف الرومی فی الدفتر الخامس من المثنوی بعد اربعۃ اخمس منہ قبیل قصۃ الشیخ محمد بقولہ ؎
گفت ہذا ربی ابراہیم را د

چونکہ اندر عالم وہم اوفتاد
	واختارہ الشیخ عبد القادر الدہلوی من اساتذتنا فی تفسیرہ لہٰذہ القصۃ وانی وان لم ارض بہ الانبیاء لکن ذھاب بعض الھل الحق لایہ کاف فی جواز احتمال کونہ عذرا۔ واللہ اعلم۔
ترجمۂ حدیث:
	 صہیب کی حدیث اس آیت کے متعلق کہ جن لوگوں نے نیک کام کیے ان کے لئے اجرِ نیک ہے اور ایک زائد انعام ہے روایت کیا اس کو مسلم نے جیسا کہ مصنف نے ذکر کیا میں (یعنی عراقی) کہتا ہوں کہ وہ حدیث یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی للذین احسنو الحسنی وزیادۃ (جس کا ترجمہ اوپر گذرا ہے اور ) فرمایا جب اہلِ جنت جنت اور اہلِ نار نار میں داخل ہوچکیں گے ایک پکارنے والا پکار ے گا اے اہلِ جنت تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک واعدہ ہے وہ تم سے اس کو پورا کرنا چاہتا ہے اہلِ جنت (تعجب سے) کہیں گے وہ وعدہ کیا ہے کیا اللہ تعالیٰ نے ہمارے میزان کو (نیکیوں سے) وزنی نہیں فرمایا اور کیا ہمارے چہرہ کو سفید نہیں کر دیا اور کیا ہم کو جنت میں داخل نہیں کر دیا اور کیا ہم کو دو زخ سے نہیں بچالیا (اب اس سے بڑھ کر کیا ہو گا جو ابھی باقی ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بس حجاب اٹھا دیا جائے گا اور حق تعالیٰ کے روئے مبارک کی طرف نظر کریں گے سوا ان کو کوئی چیز ایسی عطا نہیں ہوئی جو ان کے نزدیک حق تعالیٰ کی طرف نظر کرنے سے زیادہ محبوب ہو۔ 
ترجمۂ فائدہ:
	 یہ حدیث روایت باری تعالیٰ پر صریح دال ہے اور یہ حدیث اپنے ظاہر الفاظ سے رویت ذات پر دلالت کرتی ہے اور یہی مذہب ہے جمہور کا اور بعضے اس رویت کے تجلی مثال ہونے کی طرف گئے ہیں جیسا کہ مسلم ہی کی دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جبکہ بعض صحابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے آپ کے اس ارشاد تک کہ پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس تشریف لائیں گے اپنی اس صورت میں جس کو یہ پہنچانتے ہوں گے اور فرمائیں گے کہ میںتمہارا رب ہوں وہ لوگ عرض کریں گے آپ ہمارے رب ہیں الخ(تو اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ صورت وارد ہے اور اللہ تعالیٰ صورت سیمنزہ ہیں(پس لامحالہ یہ ماؤل ہو گیا اور سب تاویلات میں قریب تاویل تجلی مثالی ہے اور مبہم کو مفسر پر محمول کیا جاتا ہے ( پس رویت کا بطریق مثالی ہونا ثابت ہوگیا) یہ وہ قول ہے جو (اپنے مطلوب پر استدلال میں ) انہوں نے کہا ہے لیکن ( یہ اسدلال کافی نہیں کیونکہ) ظہر ہے کہ یہ رویت ہو قیامت کے دن موقف میں ہوگی اس رویت کے مغائر ہو گی جو جنت میں ہے ۔ مولانِ حق کیاکرام کے لئے ہو گی اور یہ (موقف کی رویت) تو محض امتحان کے لئے ہو گی(جیسا عنقریب آتاہے) خطابی نے اس تغائر کی تصریح کی ہے۔ جیسا کہ نووی نے شرح مسلم میں ان سے نقل کیا ہے اور ہم ابہام کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ یہ قول ینظرون الی وجہ اللہ تعالیٰ رویت عین میں صریح ہے پس اس کی تجلی مثالی کے ساتھ مفسر نہ 
Flag Counter