Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

363 - 756
عشق آں شعلہ کہ چوں بر فروخت 

ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت
	فاذا ابعد نفسہ عنہ کل العبد وقربھا بالفکار والمراقبات الی المحبوب الحقیقی بالتوجہ الیہ بشر اشرہ انقطع عن ھذا المحبوب ایضا فذھب التعلقات کلھا وبقی الواحد المجنون فقط کما قال الرومی بعد القول المذکور    ؎
تیغ لا در قتل غیر براند

در نگر آخر کہ بعد لا چہ ماند
ماند الا اللہ باقی جملہ رفت 

مرحبائے عشق شرکت سوز رفت
	وحاصل ھذا الشرط ھو العفاف واما الکتمان والصبر فھو تخصیص بعد تعمیم لان منجملۃ العفاف ان لایضفح المحبوب وھو الکتمان وان لا یکشو ولا یجزع وھو الصبر وما فی القاموس عف کف عما لا یحل ولا یحمل صریح فیعمعم معنی العفاف۔
حدیث :	جو شخص (کسی پر بلا اختیار) عاشق ہو جائے پھر عفیف رہے اور پوشیدہ رکھے پھر مر جائے وہ شہید مرے گا اس حدیث کو مقاصد میں متعدد سندوں کے ساتھ وارد کیا ہے جن میں سے بعض میںکلام کیا ہے اور بعض کو برقرار رکھا ہے، چنانچہ (جن کو برقرار رکھا ہے ان کے متعلق کہا ہے کہ اس کو خرائطی اور دیلمی نے اور ان کے علاوہ اوروں نے بھی روایت کیا ہے، اور حدیث کے لفظ ان مذکورین میں بعض کے نزدیک یہ ہیں کہ جو شخص عاشق ہو جائے پھر عفیف رہے اور پوشیدہ رکھے اور صبر کرے پھر مر جائے تو وہ شہید ہوتا ہے اور بیہقی کے نزدیک اس کی چند طرق ہیں۔
فائدہ:	اس حدیث میں دو مسئلئے ہیں پہلا یہ کہ عشق غیر اختیار مطلقاً مذموم نہیں (جیسا بعض خشک مزاح اس کو عیوب میں سے ؟؟؟؟عاشق کو حقیر وذیل سمجھتے ہیں اور مذموم کیسے ہو سکتا ہے جبکہ یہ شہادت تک پہنچاتا ہے اس طرح سے کہ کسی فعل کو اس میں فعل نہیں اور ایسی چیز (جو مدون کسی فعل کیدخل کے شہادت تک پہنچائے) مذموم نہیں ہو سکتی( یہ قید اس لئے لگائی کہ مطلقاً سبب شہادت کو غیر مذموم نہیں کہہ سکتے۔ چنانچہ کافر کا کسی مسلمان کو قتل کر دینا (اسباب شہادت سے ہے اور پھر مذموم ہے) اور اسی وجہ سے بعض اہلِ طریقت کو دیکھتے ہو کہ وہ اس عشق کی مدح کرتے ہیں اور اس کو اسباب وصول المقصود سے کہتے ہیں جیسا کہ عارف جامی فرماتے ہیں    ؎	
متاب از عشق رو گر چہ مجازی ست 

کہ آں بہر حقیقت کا سازی ست
اور جیسا عارف رومی فرماتے ہیں   ؎
عاشقی گزریں سرو گزرانِ سرست

عاقبت ما را بداں شہ رہبر است
	اور اسی حدیث کا مضمون اس کے مناسب  بھی ہے اس لئے کہ شہادت وصول الی اللہ کی فرد اعظم ہے (پس شہادت کا سبب بن جانا وصول الی اللہ کا سبب بن جانا ہے) 
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میں عشق کے محمود وموصل الی المقصود ہونے کی شرط عاشق کا عفیف رہنا اور اس کا اخفاء اور صبر کرنا ہے اور ان سب کا حاصل یہ ہے کہ ہوائے نفسانی  کا تارک رہے اور (اسی کی تفصیل میں) محققین نے تصریح کی ہے کہ عشق مجازی کا عشق حقیقی کی طرف موصل ہونا اس شرط سے مشروط ہے کہ معشوق مجازی کی طرف اور اصلا التفات نہ کرے نہ اس کی طر فنظ رکے نہ اس کا کلام سنے حتی کہ اس کی طرف قلب سے 
Flag Counter