Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

355 - 756
تفسیر خود دوسری حدیث میں آگئی ہے۔
 فی مسند احمد عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا ینبغی الممطی ان یشد رحالہ الی مسجد یبتغی فیہ الصلوۃ غیر المسجد الحرام والاقصیٰ ومسجدی ھٰذا (من منتہی المقال للمفتی صدر الدین رحمہ اللہ) 
	اور کسی نے اجتماع سے منع کیا ہے اور اس حدیث سے تمسک کیا ہے لا تجعلو قبری عیداً حالانکہ وہاں نہ کوئی تاریخ معین ہے، نہ اجتماع میں تداعی یا اہتمام ہے اور عید کے یہی دولازم ہیں اور بعض نے خیر القرون میں یہ سفر منقول نہ ہونے سے استدلال کیا ہے حالانکہ حضرت عمر بن عبد العزیز سے جو کہ دلیل القدر تابعی ہیں ثابت ہے، کہ وہ روضۂ اقدس پر صرف سلام پہنچانے کے لئے قصداً ایک قاصد کو بھیجتے تھے اور کسی سے نکیر منقول نہیں تویہ ایک قسم کا اجماع ہوگیا اور جب دوسرے کا سلام پہنچانے کے لئے سفر جائز ہے لانہ اقرب الی الضرورۃ لکونہ عملاً لنفسہ اور وہ روایت یہ ہے:
	 فی خلاصۃ الوفاء صفحہ۴۷ للسمھودی المتوفی ۱۰۱۱؁ھ وقد استفاض عن عمر بن عبد العزیز انہ کان یبرد البرید من الشام یقول سلم لی علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقال الامام ابوبکر بن عمر بن ابی عاصم ؟؟؟؟ن المتقدمیں فی مناسک التزم فیھا الثبوت (لعل المراد لا یروی فیھا الا الروایات الثابتۃ المقبولۃ عند اہل الفن۱۲) وکان عمر بن عبد العزیز یبعث بالرسول قاصداً من الشام الی المدینۃ لیقرئی النبی صلی اللہ علیہ وسلم السلام ثم یرجع (کذا کتب الی المولوی محمد شفیع من الدیوبند) قلت ان رحیل البرید ھٰذا لم یکن الصلوۃ فی المسجد وھٰذا ظاہر لا شبہۃ فیہ۔
	(حاشیہ:سمہودی کی کتب خلاصۃ الوفاء صفحہ ۴۷ میں مذکور ہے کہ عمر بن عبد العزیز کے متعلق یہ بات مفہو؟؟؟؟ہے کہ وہ ملک شام سے قاصد کو اس لئے بھیجا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںمیرا سلام عرض کرنااو ر کہا امام ابوکر بن عمر بن ابی عاصم نے اپنی کتاب مناسک میں جس میں التزام ہے کہ بے اصل روایت نہ لائیں بیان کیا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز ملک شام سے ایک قاصد کو مدینہ میں بھیجا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں سلام عرض کر کے واپس آئے۱۲ مترجم )  اور نسائی باب ساعۃ الاجابۃ یوم الجمعۃ میں جو بصرہ بن ابی بصرہ کا قول ہے لو لقیتک (یا اباھریرۃ) من قبل ان تاتیہ (الطور) لم تاتہ (حاشیہ:	اگر میں آپ سے (اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) آپ کے (کوہِ طور ) جانے سے پہلے ملاقات ؟؟؟؟؟)   اور اس پر حدیث لا تحمل المطی الا الی ثلاثۃ مساجد(حاشیہ:نہ سفر کیا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف۱۲ مترجم) سے استدلال فرمایا تو اس سے مطلق سفر لزیارۃ الطور کی ممانعت لازم نہیں آتی بلکہ سفر باعتقاد قربت سے ممانعت ہے، چونکہ اس کا قربت ہونا کسی دلیل سے ثابت نہیں اور اگر کسی سفر کا موجب قربت 
Flag Counter