Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

352 - 756
حل:
	مقامِ تحقیق یہ ہے کہ حدیث میں ہے  عن ابن عمررضی اللّٰہ عنہ کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یزور قباء او اتی قباء وفی روایۃ کل سبت راکبا وماشیا فیصلی فیہ رکعتین لستۃ الا الترمذی (جمع الفوائد) وعن ابی ھریرۃ مرفوعاً لا تختصوا لیلۃ الجمعۃ بقیام من بین اللیالی ولا تختصموا یوم الجمعۃ بصیام من بین الایام الا ان یکون فی صوم یصومہ احدکم للشیخیں وابی داؤد والترمذی (جمع الفوائد)
	ہر دو حدیث سے ثابت ہے کہ کسی مقصود مباح یا کسی طاعت کے لئے تعیین یوم اگر باعتقاد قربت نہ ہو بلکہ کسی مباح مصلحت کے لئے ہو جائز ہے جیسے مدارس دینیہ میں اسباق کے لئے گھنٹے متعین ہو تے ہیں اور اگر باعتقاد قربت ہومنہی عنہ ہے پس عرس میں جو تاریخ معین ہوتی ہے اگر اس تعیین کو قربت نہ سمجھیں بلکہ اور کسی مصلحت سے یہ تعیین ہو مثلاً سہولت اجتماع تاکہ تداعی کی صعوبت یا بعض اوقات اس کی کراہت کے شبہ سے مامون ہیں اور خود اجتماع اس مصلحت سے ہو کہ ایک سلسلہ کے احباب باہمملاقات کرکے جب فی اللہ کو ترقی دیں اور اپنے بزرگوں کو آسانی سے اور کثیر مقدارمیں جو کہ اجتماع میں حاصل ہے ثواب پہنچانا بے تکلف میسر ہوجائے نیز اس اجتماع میںطالبوں کو اپنے لئے شیخ اک انتخاب بھی سہل ہوتا ہے یہ تو ظاہری مصالح ہیںجو مشاہد ہیں یا کوئی باطنی مصلحت داعی ہو جیسا میں نے بعض اکابر اہلِ ذوقت سیسنا ہے کہ میت کواپنے یوم وفات کے عود سیوصول ثواب کیانتظارکی تجدید ہوتی ہے اور یہ مصلحت محض کشفی ہے جس کا کوئی مکذب عقلی یا نقلی موجود نہیں اس لئے صاحبِ کشف کو یا اس صاحب کو کشف کیمعتقد کو بدرجۂ ظن اس کی رعایت کرنا جائز ہے البتہ جزم جائز نہیں۔ بہرحال اگر ایسے مصالح سے تعیین  ہو تو فی نفسہ جائز ہے لیکن اگر اور کوئی عارض ہوموجب منع اس میںمنضم ہو جائے مثلاً سماع شرائط یا اختلاط امارد ونساء یا مجمع کے جمع کرنے کا اہتمام خصوص فساق وفجار کے شریک کرنے کا اہتمام یا شرکت کے بعد بلا ضرورت ان کا احترام یا احتمال فساد عقیدہ عوام تو ان عوارض سیپھر وہ مباح بھی ممنوع ہو جائے گا اور قطعاً وہ عرس واجب الترک ہو جائے گا جیسا اس زمانہ میں اکثر اعراس کی حالت ہوگئی پس قدماء مشائخ سے جو اعراس منقول ہیں اگر سند نقل صحیح ہو ان میں کوئی امر منکر ثابت نہیں پس ان کیفعل میں کوئی اشکال نہیں البتہ اس وقت کے اعراس کو ان پر قیاس کرنے کیاصلاً گنجائش نہیں کہ اس میں علاوہ فساد اعتقادی کے التزام واہتمام ایسا ہوتا ہے کہ وہ عید منہی عنہ ہو جاتی ہے جس کی نسبت نسائی کی حدیث میں ہے:
’’ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تجعلوا قبری عیدا وصلوا علی فان صلوتکم تبلغنی حیث کنتم۔‘‘
(حاشیہ :فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری قبر کو عید نہ بنانا اور مجھ پر دورد پڑھنا اس لئے کہ تمہارا درود میرے پاس پہنچے گا جہاں کہیں تم ہو۱۲ مترجم) یہ تقریر تھی تحقیق حکم عرس میں اب واقعہ مذکورہ مقام کے متعلق عرض کرتا ہوں کہ حضرت شیخ کے عرس میںکوئی ایسا امر منقول ہے ہی نہیں جو فی نفسہ منکر ہو اور غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے عوام بھی احتمال مفسدہ سے مبرا تھے کیونکہ جو سوال واقعہ میں مذکورہ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر فعل کا ماخذ ومنشا شرعی ڈھونڈتے تھے تو اس سے ان کی خوش اعتقادی معلوم ہوتی ہے اور یہاں سے معلوم ہوگیا کہ 
Flag Counter