Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

35 - 756
الترجیح وابن امیر الحاج شارح المنیۃ لیس من اھل الترجیح (کذا فی الحموی شرح الشباہ من الفن الثالث فی احکام الخنثیٰ) بل ھو من نقلۃ المذھب فکان علیہ عزو القید المذکور إلی کتاب من الکتب المعتبرۃ ونعل الیہ اشار السید المحقق بقولہ ولم ارہ لغیرہ بقی ھل یجب التوجہ الی القبلۃ وکلما دار المرکب الدخانی عنھا عند استفتاح الصلوٰۃ وفی خلال الصلوٰۃ الظاھر نعم فان لم یمکنہ یمکث عن الصلوٰۃ الا اذا خاف فوت الوقت ھذا ماظھر لی واللّٰہ تعالیٰ اعلم وعلمہ احکم۔
	الجواب من المولوی حبیب احمد
فی الدر المختار المربوطۃ بالشط کالشط فی الاصح الخ وقال فی رد المحتار قولہ المربوطۃ بالشط کالشط فلاتجوز الصلوٰۃ فیھا قاعدا اتفاقا وظاھر مافی الھدایۃ وغیرھا الجواز قائما مطلقا ای استقرت علی الارض اولا وصرح فی الایضاح بمنعہ فی الثانی حیث امکنہ الخروج الحاقا لھا بالدابۃ( نھر)واختارہ فی المحیط والبدائع بحر وعزاہ فی الامداد ایضا الی مجمع الروایات عن المصفی وجزم بہ فی نور الایضاح وعلی ھذا ینبغی ان لاتجوز الصلوٰۃ فیھا سائرۃ مع امکان الخروج الی البر وھذہ المسئلۃ الناس عنھا غافلون شرح المنیۃ ، الخ ص:۷۶۷
اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ سفینہ کے مثل دابہ ہونے میں اختلاف ہے صاحب ہدایہ وغیرہ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس کو مثل دابہ نہیں سمجھتے اور اس میں نماز بلاعذر جائز ہے اور دیگر علماء نے تصریح کی ہے کہوہ مثل دابہ کے ہے اور اس میں نماز بلاعذر جائز نہیں اور راجح یہ ہے کہ وہ مثل دابہ کے ہے، جب یہ معلوم ہوگیا تو اب سمجھنا چاہئے کہ الامداد میں جو لکھا گیا ہے (رفع اشتباہ) اس جہاد کو مثل دیرائی جہاز کے نہ سمجھا جائے کیونکہ وہ بواسطہ پانی کے مستقر علیا لارض ہے اور اس کا استقرار پانی پر اور پانی کا ارض پر بالکل ظاہر ہے ھ (اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ظہور استقرر کی وجہ سے اس کو اگر مثل دابہ نہ کہا جائے بلکہ اس کو مثل سریر سمجھا جائے تو گویہ مرجوع ہے مگر اس کی گنجائش ہے جیسا کہ ظاہر ہدایہ وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے برخلاف ہوائی جہاز کے کہ وہاں یہ گنجائش نہیں۔ فاتضح فائدۃ ھذا الکلام واندفع مااورد علیہ بقولہ بھذا ظھر ان کون السفینۃ علیی الماء والماء علی الارض مما لاینتج نتیجۃ تفید حکما من الاحکام الخ ۔
التماس:
 اب ناظرین علماء سے اس کی تنقید کرلیں۔فقط
۴؍ذی الحجہ ۱۳۳۶ھ
بائیسواں غریبہ

Flag Counter