Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

346 - 756
بخلاف اس قیاس کے کہ یہاں مقیس میں حکم دوسری مستقل دلیل سے ثابت  ہے، اس قیاس سے محض تو ضیح وتائید مقصود ہوتی ہے پس یہ حقیقی قیاس نہیںمحض صورت قیاس کی ہے اسی لئے اس کے لئے قیاس کے احکام ثابت نہیں پس یہ امر تو دونوں قسموں میں مشترک ہے پھر آگے ان میں ایک تفصیل ہے جس سے دونوں کا درجہ جدا ہو جاتا ہے وہ یہ کہ اگر وہ غیر مدلول قرآنی مقصود دینی ہے تو اس قیاس کا درجہ علم اعتبار سے ہے او وہ معلوم امت کا رہ اہے بشرطیکہ اس کودرجہ تفسیر تک نہ پہنچایا جائے اور اگر وہ غیر مدلول قرآنی مقصود دنیوی ہے تو اس قیاس کا درجہ فال متعارف یا شاعری سے زیادہ نہیںگو مضومن مقیس صحیح ہی ہو یا اتفاق سے صحیح ہو جائے چنانچہ شعراء بھی اپنے خیالی دعاوی میں ایسے ہی قیاسات سے استدالال کیاکرتے ہیں اور کبھی دعاویٰ فی نفسہ صحیح بھی ہوتے ہیں۔ ایک اردو کا شاعر کہتا ہے    ؎
سرخ رو ہوگیا پیش حکماء بطلیموس 

جب وہ خورشید ہوا گردنبارس دوار
	اس شاعر کے گرد وطوافکرنے سے بطلیموسکے مذہبکی صحت پر استدلال کیا کہ آفتابزمیں کے گرد گھومتا ہے ایکفارسی شاعر کہتا ہے    ؎
فدا گنگ وجمن بر ہر دو چشم اشکبار من 

نمی آئی چرا از بہر اشنان در کنار من
	اس میں اپنی دونوں آنکھوں کو گنگ وجمن سے تشبیہ دی اور اس سے محبوب کے لئے غسل کے واسطے اپنے پاس آنے کی ضرورت پر استدلال کیا ایک عربی کا شاعر کہتا ہے   ؎
اراک ظننت السلک جسمی فعقتہ 

علیک بدر من لقاء الترائب
	اس میں اپنے جسم کو بزعمِ محبوب خیط عقدِ کے مشابہ قرار دے کر سینہ سے جدا رکھنے کی تجویز پر استدلال کرتا ہے تو کیا ان استدلالات کو علوم کمالیہ میں بلکہ علوم الٰہیہ میں بھی کوء شمار کرتا ہے یا ان کو قابلِ تسلیم سمجھتا ہے اسی طرح اہلِ فال کبھی قرآن سے اپنے خاص احکام خبر یہ یا انشائیہ پر استدلال کیا کرتے ہیں تو کیا وہ علوم قرآنیہ میں داخل ہوجاتے ہیں مثلاً اگر کسی شخص مسمی زید کا اپنی بیبی سے کچھ جھگڑا ہوا اور اس کو یا تو یہ تردد ہو کہ اس معاملہ کا انجام کیا ہوگا یا یہ تردد ہو کہ مجھ  کو اس مکیں کیا کرنا چاہئے اور وہ قرآن سے تفاول کرے اور اتفاق سے اس میں سورۂ احزاب کی آیات جو زید بن حارثہ کے باب میں نازل ہوئی ہیں نکل آویں اور اس سے اپنے انجام پر استدلال کرے کہ مفارقت ہوگی یا اس مشورہ پر استدالل کرے کہ اس سے مفارقت کر لینا مناسب ہے، اور واقع میں بھی ایسا ہی ہو تو کیا یہ استدلال صحیح ہے اور کیا قرآن سے اس خبر یا انشاء کی صحت کا اعتقاد جائز ہوگا اسی واسطے محققین علماء نے ایسے تفاول کو حرام کہا ہے (کما فی الفتاویٰ الحدیثیہ لابن حجر التیمی صفحہ ۱۶۴) 
	اور جس تفاول کی اجاازت ہے اس کی حقیقت صرف تقویت رجاء کی ہے بناء ضعیف پر جو کہ بدون ایسی بناء کے بھی مامور بہ ہے، نہ کہ استدلال اور اس درجہ میں تفاول من المصحف بھی جائز ہوگا اگر کوئی شبہ کرے کہ شاید مبنی فتویٰ حرمت کا یہ ہو کہ اس میں علم غیب کا دعوی ہے نہ یہ کہ ایسا استنباط نا جائز ہے جواب یہ ہے کہ علم غیب کا دعویٰ بھی تو جب ہی ہے جبیہ استنباط نا جائز ہے۔ کیونکہ اگر یہ استنباط جائز ہو تو پھر یہ علم بواسطۂ دلیل ہوتا علم غیب نہ ہوتا کیونکہ اس کی حقیقت علم بلا واسطہ ہے تو اس استنباط کا ناجائز ہونا ہر حال میںلازم ہے اور ظاہر ہے کہ اہلِ تفاول صریحاً ایسے احکام کو مدلول قرآنی نہیں کہتے پھر بھی ایہام لزوم سے حرمت کا حکم کیا جاتا ہے اور ان تفاسیر مخترعہ میں تو ان کے مدلول قرآنی ہونے کا صریح التزام کیا جاتا ہے۔ چنانچہ تنبیہ بست ویکم میں یہتصریح منقول ہے تا ایں مقام ملک داری ختم شد۔ پس جو درجہ اس شاعری یا اس تفاول کا ہے یہی درجہ اس قیاس متلکم فیہ کا ہے بلکہ ایک علم جو بوجہ انتسابالی الصلحاء اس سے بھی اشرف ہے، یعنی تعبیر رؤیا کہ اس کا مدار بھی ایسے ہی مناسبات پر ہے، اس کو بھی نہ کوئی قابلِ تحصیل سمجھتا ہے اور نہ کسی درجہ میں اس کو حجت سمجھتا ہے بلکہ جو علم اس علم تعبیر سے بھی اشرف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ 
Flag Counter