Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

343 - 756
عقائد واحکام ہیں نہ کہ ایسی روایات جن پر دوسری اقوام بھی ہنسیں ۔ ایسی روایات بعض معتبر کتابوں میں آئی ہیں جن کی نہ تصدیق واجب ہے، کیونکہ سند صحیحنہیں اور نہ تکذیبواجب ہے، اسلئے کہ فینفسہ ممکن ہی۹ں اس لئے ایسے صور میں مشغول ہی نہ ہونا چاہئے نہ تصدیقاً نہ تکذیباًاور ایسے واعظوںکاوعظ ہی کیوں سناجاتا اور ان سے مطالبہ سند کا  کیوں نہ کیا گیا اسی جلسہ میں حقیقت کھل جاتی۔ ۸ربیع الثانی ۱۳۵۰؁ھ 
اس کے بعد اس کے متعلق دوسرا خط آیا جو ذیل میں منقول ہے
السوال:
	 جناب  ماسٹر محمد شریف خان صاحب نے حال میں ایک استفتاء خدمت عالی میں پیش کیا تھا جو ہم رشتۂ عریضۂ ہذا ہے جواب سے یہظاہر ہوتا کہ روایات مذکورہ ضعیف ہیں اور ان کی کوئی سند نہیں حسبِ  اتفاق ایک صاحب کو نشر الطیب میں انہیں روایات کو دیکھنے کا اتفاق پش آگیاانہوں نے نشر الطیبکے صفحات ۱۳۵و۱۳۶ مجھ کو دکھلائے اب وہ فتویٰ اور یہ تحریر معلوم ہوتی ہیں۔نشر الطیب میں روایت بقول حضرت عائشہ صدیقہ بیان کی گگئی ہے ۔ جواب جلدی عطا فرمائے تاکہ تسکین ہو۔ ۲۲اگست ۳۱  ؁ء
الجواب:
 ضعیف بلا سند نہیں ہوتی بلکہ بسند ضعیف ہوتی ہے جو عقائد میں حجت نہی فضائل میں کھپ جاتی ہے۔ میں نے تحریر سابق میں یہی لکھا ہے کہ سند صحیح نہیں تو دونوں تحریروں میں تضاد نہیں کیونکہ ضعیف کی نفی نہیں کیاور اس ضعفِ سند ہی سے ایسی کتابوں کو غیر معتبر بتلایا تھا کیونکہ معتبر صحیح کو کہتے ہیں ضعیف کو نہیں کہتے باقی یہ کہ پھر کتاب میں کیوں لکھا سو کتاب تو فضائل میں ہے، عقائد واحکام میں نہیں اگر شاذونادر ایسی بھی کوئی روایت لکھی جائے کھپت ہو جاتی ہے بخلاف وعظ کے کہ وہ عقائد واحکام کی تعلیم کے لئے ہوتا ہے اس میں ایسے مضامیں نہیں کھپتے۔ دوسرے وعظ سننے والئے اکثر کم فہم ہوتے ہیں اور کتاب پڑھنے والے اکثر فہیم۔ ۸ربیع۲   ۵۰؁ھ
اضافہ:
	 بعدتحریر جواب ہٰذا شرح الشفاء ملا علی قاری میں یہ بحث نظر سے گذری انہوں نے فضل نظافت جسم نبوی میں اس پر بہت مبسوط لکھا ہے خلاص اس کا یہ ہے کہ بعض روایات کا تو ثبوت مقدوح ہے اور بعض کی دلالت اور بعض روایات میں شاربین کا یہ قول مذکور ہے شربتہ انا لا اعلم لا اشعر او رایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے متعلق نہی فرمانا مذکور ہے اور وہ یہ ہے ۔
	 روی ابن عبد البر ان سالم بن ابی الحجاج حجمہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثم ازدروای ابتلغ فقال اما علمت ان الدم کلہ حرام وفی رویاۃ لا تعد فان الدام کلہ حرام۔ 
	 پس مسئلہ بلاکل منقح ہو گیا کہ طہارت کا دعویٰ بلا دلیل ہے۔ ۸ربیع ۲  ۱۳۲۵۰؁ھ 
تیرھواں نادرہ 
رسالہ البصائر فی الدوائر

Flag Counter