Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

331 - 756
روز کا جیسے عرض تسعین میں کہیں ان کے درمیان مختلف مقادیر پر اور سب واقعی ہیں اوریوم نام ہے مابین الطلوع والغروب کا پس جو شخص استواء پر ہے اس کے افق پر جتنے زمانہ میں تین سو بار سے زیادہ طلوع وغروب ہو چکتا ہے اس زمانہ میں عرض تسعین والئے افق پر ایک بار طلوع وغروب ہوتا ہے پس یہ دوسرا شخص برس روز کے زمانہ کو ایک لیل ونہار کہتا ہے اور پہلا شخص چوبیس گھنٹہ کو ایک لیل ونہار کہتا ہے اور دونوں صحیح ہیں مگر یہاں دونوں شخصوں کا دو افق پر ہونا شرط ہے اگر آخرت میں بھی ایسا ہی ہو کہ اس کے طلوع وغروب میں پچاس ہزار برس کا فاصل ہو اور اس کے معاملا ت اس میں ملے ہوں اور کچھ آفاق پر ان دونوں صورتوں کے درمیان میں وہ طلوع وغروب ہو مگر وہاں ان لوگوں کا جدا جدا افق پر ہونا شرط نہ ہو اس میں کوئی استحالہ نہیں اور اس کا حاصل یہ ہو گا کہ واقع میں وہ طلوع وغروب مختلف آفاق پر ہوگا جیسے دنیا میں اگر بطور خرق عادت کے خط استوا پر دو شخصوں میں سے ایک کو اپنا افق منکشف ہوجائے دوسرے پر اپنا افق مستور ہو جائے اور عرض تسعین منکف ہو جائے تو ایک کا یوم چوبیس گھنٹہ کا ہو جائے گا دوسرے کا برس روز کا اور دونوں واقعی ہیں مگر یہاں ایسے خارق کا وقوع کم ہوتا ہے وہاں ہر چیز خارق ہی ہوگی اس لئے یہاں کسی امر کا مستبعد ہونا وہاں بھی اس کے مستبعد ہونے کو مستلزم نہیں خوب سمجھ لو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ایک قسم کے لوگوں کے آفاق مختلف ہوں یعنی ایک جماعت کا افق وہ ہو جہاں ایک ہزار برس کا دن ہو اور دوسری جماعت کا وہ افق ہو جہاں پچاسہزار برس کا دن ہوا اور کچھ جماعتیں ان کے درمیان ہوں تو اس میں خرقِ عادت کی بھی ضرورت نہیںصرف بطور حرکتِ شمس میں مثلاً خرقِ عادت ہوگا اور یہ سب اس اشکال کا جواب ہے جو کسی خاص تفسیر پر واقع ہوتا ہے اگر دوسری تفسیر اختیار کر لی جائے تو اصل سے یہ اشکال ہی واقع نہیںہوتا چنانچہ درمنثور میں دوسری تفاسیر بھی منقول ہیں پس قرآن پر اشکال کے وقوع کا شبہ نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ ۴شعبان   ۱۳۴۸؁ھ
چوتھا نادرہ  
در تنقید بر حصہ معینہ جلد سوم سیرۃ النبی 
اظہار رائے در باب حصہ معینہ سیرۃ النبی مجلد سوم حسبِ استدعاء مؤلف حصہ مذکورہ 
	از اشرف علی عفی عنہ بخدمت مکرمی جناب  مولانا عبد الباری صاحب دام لطفکم السلام علیکم ۔ سیرۃ النبی مجلد سوم پہنچی حسبِ الرشاد معجزات اور فلسفہ جدیدہ کا باب دیکھا گو نظر غائر سے دیکھنے کا وقت نہیں ملا۔ تاہم سرسری نظر کبھی میرے خیال میں ضرورت کے لئے انشاء اللہ کافی سے کم نہیں رہی۔ حسب الارشاد اپنی عرض کرتق ہوں اگر توافق نہ ہو قبول نہ فرمائیے مگر مکدر نہ ہو جیے کیونکہ مامور معذور ہے۔ وھوھذا ۔ اس میں شک نہیں کہ اس باب میں ایک کام تو اتنا بڑا ہاور کافی سے بھی زیادہ ہوگیا کہ غالباً اس میں اضافہ کی حاجت بلکہ گنجائش بھی نہیں رہی اور وہ کام دفع استبعاد ہے فلسفۂ قدیمہ کے اصول علمی ہیں ان کی بناء پر جو استبعاد ہوتا ہے وہ علوم ہی سے دفع ہو جاتا ہے مرگ اس سے صرف عقل کو قناعت ہوجاتی ہے جو کہ واقع میںکافی ہے لیکن فلسفۂ جدیدہ زیادہ تر بلکہ تمام تر بزعمِ خود مشاہدات کا پابند ہے اور بزعمِ خود اس لئے عرض کیا کہ واقع میں وہ اس کا بھی پابند نہیںہچنانچہ مادہ کے متعلق اس کے اکثر احکام محظ جزا فی وخیالی ہی ہیں تاہم اس کو ناز ہے کہ میں بے دیکھے نہیںمانتا اس لئے ایک وہ شخص جس نے اول ہی سے عقل کو چھوڑ کر حواس ہی کی خدمت کی ہو وہ باب معجزات میں بھی ان کے نظائر کے مشاہدات کا جویاں رہتا ہے اور بدون اس کے اس کی قوت وہمیہ کو قناعت نہیںہوتی اور استبعاد رفع ہوتا اور اس زمانہ قحط علم وقعل میں کثرت اسی مذاق کی ہوگئی ہے اس لئے ان اصول پر بھی دفع استبعداد کی ضرورت یا مصلحت تھی سو اس تحریر میں استبعاد کا تو نام ونشان نہیں رہا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی تین باتیں ایسی 
Flag Counter