Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

330 - 756
قید نہیں ہے اس لئے تعارض نہیں ہے یعنی وہاں کے ایک ہزار برس سے مراد تمہارے ایک ہزار سال ہیں اور یہاں پچاس ہزار سسے کوئی اور حساب مراد ہے جو اسی ایک ہزار کے مساوی ہے مگر جب ایک ہی دن کی مقدار بیان کی جارہی ہے اور ایک جگہ اس میں مما تعدون کی قید ہے اور دوسری جگہ نہیں کیوں نہ سمجھا جائے کہ وہی قید یہاں بھی ہے خاص کر اس حالت میں کہ مخاطب بھی ایک ہی ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایک جگہ تو مخاطب کے اعداد کا شمار ہے اور ایک جگہ کسی اور عالم کے اعداد کا اگر خمسین اعتباری مانا جائے جیسا کہ حضور والا اشارہ ہے تو شاید اس کی تائید اس سے ہو کہ سورۂ معارج مکیہ ہے اور وہاں کے لوگوں کا عناد وسرکشی زائد تھی اس لئے انہیں خمسین معلوم ہوا اور سورۂ حج مدنی ہے وہاں اس چیز میں کمیتھی اس لئے انہیں الف سنۃ معلوم ہوا واللہ اعلم۔ مگر سب نکات ہیں ان سے نہ تسکین ہوتی ہے اور نہ سکوت۔ دل کسی قوی بات کا جو یاں ہے کیونکہ یو ں تو تمام عذاب میں یہ شبہ ہوگا کہ واقعی کچھ اور ہے اور امتداد واشتدادکے تفاوت سے فرق اعتباری پیدا ہوگیا۔
الجواب:
	 عند ربک قید نسبت بین الموضوع ولامحمول کی نہیں ہے تاکہ اس کا یہ مدلول ہو کہ وہ االلہ تعالیٰ کے نزدیک یعنی واقع میں ہزار برس کا ہوگا بلکہ یہ قید یوما کی ہے یعنی وہ دن جو تمہارے رب پاس کا ہے یعنی آخرت کا دن محاورہ قرآنیہ میں آخرت کی چیزوں کو عند الرب کہا گیا ہے۔ جیسے لھم اجرھم عند ربھم رہا یہ کہ وہ واقع میں کتنا بڑا ہوگا قرآن اس سے ساکت ہے باقی تشبیہ اس کیالف سنۃ کے ساتھ اس میں خود دو احتمال ہیں ک وجہ تشبیہ امتداد ہے یا اشتداد کما اشرت الیہ فی بیان القرآن البتہ حدیث ظاہراً اس پر دال ہے کہ ا کی مقدار واقع میں ہزار برس ہوگی مگر بیان القرآن سے اس کو تعارض نہیں کیونکہ اس کے معنیٰ یہ ہوں گے کہ بعض کو مقدار واقعی کے برابر معلوم ہوگا  بعض کو زیادہ رہا یہ کہ جب واقعی مقدار کی برابر معلوم ہو تو اس میںکفر کا کیا دخل۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کفر نہ ہوتا تو حسبِ حدیث مذکور فی بیان القرآن ایسا خفیف معلوم ہوتا جیسا فرض نماز کا وقت ابر ہی دوسری آیت کان مقدارہ الف سنۃ سوا س میں بھی نصا کوئی دلالت کی سوال میں مذکور ہے وہ مسلم نہیں کیونکہ اگر قرآن کی عبارت یوں ہوتی کان مقدارہ فی اعینھم خمسین الف سنۃ تو کیا اس وقت یہ کلام صحیح نہ ہوتا اور کیا آیت کے اجزاء میں تعارض ہوتا کہ کان مقدارہ خمیسین الف سنۃ میں فعل ناقص ماضی لایا گیا ہے الی قولہ اس کی مقدار کا تیقن دلایا گیا ہے۔ اھ جس کا مقتضی یہ ہے کہ یہ مقدار واقعی ہے اور فی اعینھم کا مقتضی اس کے خلاف ہے ، اسی طرح سے آیت کے اجزاء میں تعارض ہے اس سے صاف معلوم ہوا کہ کان کا یہمقتضا نہیں ہے اور کلام بھی صحیح ہے جیسے آیت فئۃ تقاتل فی سبیل اللہ واخریٰ کافرۃ یرونھم مثلیھم رأی العین علی التفسیر المشہور اور آیت واذ یریکموھم اذا التقیتم فی اعینکم قابلاویقللکم فی اعینھم الاٰیۃ۔ البتہ اگر کوئی دلیل معارض نہ ہوتی تو یہ آیت ظاہراً مقدارواقعی پر دال ہوتی مگر جب دوسری آیت معارض ہے تو ظاہر کوترک کر کے خلاف ظاہر محمول کرنا واجب ہوگا جبکہ اس عمل سے کوء امر مانع بھی نہیں۔ 
	رہا یہ کہ سب نصوص میں ایسا ہی شبہ خیالی ہونے کا ہو جائے گا سو ظاہر کو بدون دلیل چھوڑنا جائز نہیں یہاں دلیل ہے اور نصوص میں دلیل نہیں۔ فشتان ما بینھما ایسے ہی ظاہر کو دلیل سے چھوڑنے کیاور بھی نظائر ہیں کقولہ تعالیٰ فی قصۃ ذی القرنین وجدھا تغرب فی عین حمئۃ ووجد عندھا قوماً ۔ وجدان کا مادہ دو جگہ آیا ہے مگر اول وجد کو خیال پر محمول کیا جاتا ہے دوسرے کو واقعہ پر اول سے دوسرے میں شبہ وقع نہیں ہوتا اور یہاں تک ضابطہ کا جواب ہوگیا اب تبرعاً ایک دوسرا جواب دیتا ہوںجس میں دونوں آیتوں میںواقعیت  محفوظ رہے وہ یہ کہ دنیا میں جس طرح معدل النہار کی حرکت یومیہ کسی مقام پر دو لابی ہے کہیں حمائلی کہیں رحوی اور اس اختلاف سے کہیں دن رات کا مجموعہ چوبیس گھنٹہ کا ہوتا ہے کہیں برس 
Flag Counter