Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

329 - 756
یاخذاموالھم برضاھم فی قولہما ولا یجوز شئی فی قول ابی یوسف۔ فانظر انہ ذکر الجزئی ولم یحکم علیہ بکونہ فیئاً فعلم ما خذا الم ؟؟؟؟؟مسئلۃ مستقلۃ ولو کانت من فروع الفئی لم یختلف فیھا ابو یوسف ولو اختلف لم یکن مانع من ذکرھا بعنوان الفیٔ فتدبر‘‘۔
	نیز امام صاحب کے قول کے ماننے پر بھی یہ امر قابلِ غور ہے کہ مال کیا باحت عقد کیا باحت کو مسلتزم نہیں تو معصیت سے براء ت حاصل نہ ہوئی جیسے امام صاحب کے نزدیک قضاء قاضی ظاہراً وباطناً نافذ ہو جانے سے غیر کی منکوحہ سے بعد دعویٰ طلاق کسی نے نکاح کیا عورت حلال اور یہ ذریعہ نزدیک قضاء قاضی ظاہراً وباطناً نافذ ہوجانے سے غیر کی منکوحہ سے بعد دعویٰ طلاق کسی نے نکاح کیا عورت حلال اور یہ ذریعہ حرام۔ ویؤیدہ قولہ تعالیٰ کتاب من اللّٰہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم فکلوا مما غنتم حلالا طیبا الاٰیۃ حیث قبح الطریق ای اخذالفداء وحسن المقصودی الاکل فدل علیٰ ان حسن مقصود لا یستلزم حسن الطریق فقط ۲۲ج۲   ۴۸؁ھ
تیسرا نادرہ
 تطبیق عجیب در مقدار یوم بعث الف وخمسین الف
سوال:
	 سورۂ حج میں روزِ حشر کی درازی اس طرح بیان فرمائی گئی ہے ان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون۔اور سورۃ معارج میں ہے فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ ان دونوں کی تطبیق بیان القرآن میں اس طرح ہے کہ کچھ امتداد کچھ اشتداد سے کفار اس قطر طول محسوس ہوگا اور چونکہ حسبِ تفاوت مراتب کفر اشتداد میں تفاوت ہوگا اس لئے ایک آیت میں کالف سنۃ آیا ہے الخ صفحہ ۴۰ جلد ۱۲ (صفحہ ۷۶ جلد ۷ آیت اولیٰ کے لئے پہلی آیت میں عند ربک یہ بتا رہا ہے کہ اس دن کا طول واقعی اتنا ہے یا کم از کم اللہ کے نزدیک تنا ہے جتنا تم لوگوں کی شمار میں ایک زہار برس کا ۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ اس دن کی مقدار ہی اتنی ہے اور ایسا نہیں ہے کہ واقعی مقدار اسکی کچھ اور ہے امتداد واشتداد حسبِ تفاوت مراتب کفر کی وجہ سے وہ ہزار برس معلوم ہوں گے کیونکہ عند ربک اس کا قرینہ ہے ورنہ عند الکفار یا مثل ذالک کوئی اور لفظ ہوتا اور اس کی تائید حضرت شاہ ولی الللہ صاحب محدث رحمہ للہ کے کلام سے بھی ہوتی ہے وہ ازالۃ الخفاء میں اس حدیث کی شرح میں کہ میری امت کو نصف یوم کی مہلت دی گئی (اوکما قال) تحریر فرماتے ہیں کہ اس سے مراد عباسیوں کی خؒافت ہے جو پورے پانچ سو سال رہی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کا ہے اور پانچ سو سال اس کے نصف ۔ جبی ہواضح ہوگیا کہ الف سنہ سے واقعی الف سنۃ مراد ہیں نہ کہ اعتباری الف سنہ۔ اب میں کہتا ہوں اسی طرح کان مقدارہ خمسین الف سنۃ میں فعل ناقض ماضی لایا گیا ہے جو باعتبار زمانہ کے نہیں بلکہ باعتبار تیقن وقوع فی المستقبل کے ہے اور یہاں نفس وقوع کا تیقن نہیںدلایا گیا ہے اس لئے یہاں بھی واقعی خمسین مراد ہیں نہ  کہ اعتباری خمسین پھر اگر اعتباری ہوتا اسس کے لئے عدد کا ذکر کیوں ہوتا کوئی اور لفظ ہوتا جو اس کے امتداد طول پر دلالت کرتا مثلاً کان مقدارہ طویلا او ممتدا او مثل ذالک اور اگر یہ کہا جائے کہ الف سنۃ کے ساتھ مما تعدون کی قید ہے اور یہاں 
Flag Counter