Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

328 - 756
	 ایک دوست نے اخبار ’’سچ‘‘میں ایک مناظرہ عالم کا مضمون مسئلہ اخذ ربوا کو فئی میں داخل کر کے اباحت کا حکم کیا اس کا جواب حسبِ ذیل دیا گیا۔ 
	وھو ھٰذایہ سب تقریر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کی توجیہ اور تائید ہے جو شخص اس کو امام صاحب رحمہ اللہ کا قول مانتا ہے اس کو اس توجیہ وتائید کی چنداں حاجت نہیں وہ بدون ا سکے بھی مانتا ہے لیکن باوجود اس نسبت کے صحیح ماننے کے اگر وہ اس قول کو نہیں لیتا بلکہ ابو یوسف کے قول کو لیتا ہے اس پر یہ تقریر حجت نہیں اور ابو یوسف کی طر سے وہ اس کا جواب دے سکتا ہے چنانچہ ایک سہل جواب تو یہی ہے کہ اگر یہ فئی ہے تو فئی عامہ مسلمین کا حق ہے نہ کہ کسی خاص شخص کا بلکہ بعض جزئیات میں تو غیر غنیمت وغیرہ فئی کا حکم بھی یہی مذکور ہے۔ کما رد المحتار
 ’’باب المغنم وقسمتہ بعد نقل عبارۃ الشرح السیر الکبیر (التی مون قلب بفصل مسئلۃ واحدۃ) مقتضاۃ ان ما اخذ بالقتال والحرب غنیمۃ وما اخذبعدہ ما وضع علیھم قھراً کالجزیۃ والخراج فیٔ وما اخذ منھم بلا حرب ولا قھر کالھدیۃ والصلح فھو لا غنیمۃ ولا فیٔ وحکمہ حکم الفئی لایخمس ویوعض فی بیت المال فتامل۔‘‘۔
 	قلت یمکن ان یکون قولہ فتامل الشارۃ الی ما فی الھندیۃ ’’(من الاختلاف فی ھٰذا الاخیر کم اذکر قبیل ھٰذہٖ العبارۃ ما نصہ الغنیمۃ اسم لما یوخذ من اموال الکفرۃ بقوۃ الغزاۃ وقھر الکفرۃ والفئی ما اخذ منھم من غیر قتال کالخراج والجزیۃ وفی الغنیمۃ الخمس دون الفئی  وما یوخذ منھم وھدیۃ او سراقۃ او خلسۃ او ھبۃ فلیس بغنیمۃ وھو للاخذ خاصۃ۔‘‘
(فائدہ :
	قلت یمکن ان یجمع بینھما ان الہدیۃ والہبۃ الحاصلتین الانام فی حکم الفئی والحاصلتین بغیر الامام للأخذ ویؤیدہ قرنہ بالخلسۃ والسرقۃ فی الروایۃ الثانیۃ وقرنہ مع الصلح فی الروایۃ الاولیٰ والصلح خاص بالامام ۱۲منہ)۔ قلت ولکونہ غیر فئی لم یدخلہ احد من الفقہاء فی الفئی فی ذکر ھذا الجزئی وفی کتاب السیر ایضا کما فی رد المحتار باب المستامن عند قول الدر المختار دخل مسلم دار الحرب بامان حرب تعرضہ لشئی ما نصہ۔ 
تنبیہ:
	فی کافی الحاکم وان بایعہم الدرھم بدرھمیں نقدا او نسیئۃ او بایعھم بالخمر الخنزیر والمیتۃ فلا بأس بذلک لان لہ ان 
Flag Counter