Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

327 - 756
 دررد اخال ربوٰ دار الحرب در فیٔ 
	سوال کا واقعہ ایک صاحبِ علم کا حیدرآباد سے میرے ایک مہمان کے پاس خط آیا جس میں مجھ سے دریافت کرنے کولکھا تھا کہ حربی کا مال تو یا فئی ہے یا غنیمت۔ کیا کسی حالت میںکسی نص سے حربی کے مال کا معصوم ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ 
جواب کا واقعہ ان کے جواب میں رافع الضنک کی عبارت ذیل مع اضافہ لکھی گئی ۔ 
عبارت:
	آیات تحریم ربا میں ارشاد ہے۔ یا ایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وذروا ما بقی من الربوا ان کنتم مومنین اور ظاہر ہے کہ اس بقیہ ربا کا معاملہ جس وقت ہواہے لینے دینے والئے سب حربی تھے تو تحریم کے بعد اگر حربی سے ایسا معاملہ جائز ہوتا تو تحریم کے قبل تو بدرجۂ اولیٰ جائز ہوتا اور وہ رقم حلال ہوتی تو اس کا ترک کرنا کیوں فرض ہوتا۔
اضافہ:
	اور سبب اس کا حربی کے مال کا محترم یعنی فی نفسہ معصوم ہونا نہیں بلکہ اس کا لتعارض معصوم ہونا ہے دو عارض معاہدہ ہے جس کے سبب ہر ایک دوسرے سے مامون ہے اور معاہدہ عام ہے۔ قالی ہو یا حالی ہو یعنی باہمی ایسی معاشرۃ کہ کسی کو کسی سے خطرہ نہ ہو اور ابو داؤد نے با ب صلح العدو میں اور بخاری نے با ب الشروط فی الجہاد میں مغیرہ کا قصہ اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ذکر کیا ہے:
’’ وکان المغیرۃ صحب قوما فی الجاہلیۃ فقتلھم واخذاموالھم ثم جاء واسلم فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اما الاسلام فاقبل واما المال فلست منہ فی شیٔ الحدیث۔‘‘۔
اور اس پر قسطلانی نے لکھا ہے:
’’ لان اموال المشرکین وان کانت مغنومۃ عند القہر فلا یحل اخذھا عند الا من فاذا کان الانسان مصاحبا لھم فقد امن کل واحد منھما صاحبہ فسفک الدماء واخذالاموال عند ذلک غدر والغدر بالکفار محظوراً انما تحل اموالھم بالمحاربۃ المغالبۃ وذکر نحوہ الکرمانی وصاحب الخیر الجاری۔‘‘ 
	پس مال حربی کا فئی یا غنیمت ہونا مخصوص ہے حالتِ مغالبہ کے ساتھ کما فی رد المحتار:
’’ باب المغنم وقسمتہ عن شرح السیر الکبیر لان الغنیمۃ اسم لمال مصاب بایجاف الخیل والرکاب والفیء اسم لما یرجع من اموالھم الی ایدینا بطریق القھر الخ فقط ۱۴ج۳    ۴۸؁ھ‘‘
واقعہ:

Flag Counter