Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

322 - 756
بال کٹا کر مثل وغیرہ کے کر دیتے تھیں (ولفظہ یاخذن من روسھن حتی تکون کالوفرۃ)اب یہ سوال ہے کہ کیا عورتوں کے لئے بال کٹانے اوروفرہ کے مثل بنانے جائز ہیںیا نیں اور کسی صحیح حدیث کے اندربال کٹانے سے صاف ممانعت ہے یا نہیں اورصحیح مسلم کی حدیث کا محمل کیا ہے۔ 
الجواب:
	اس وضع مسئول عنہ کی حرمت پر دلائل صحیحہ قائم ہیںاور جواز کی دلیل میںچند احتمالات ہیں۔ اس لئے حرمت ثابت استدلال فاسد ۔ امر اول کا بیان یہ ہے کہ مبنیٰ اس وضع کا یقینا تشبہ بنساء الکفار ہے جو اہلِ وضع کو مقصودبھی ہے اور اس میں تشبہ بالرجال بھی ہے گو ان کو مقصود نہ ہو اور اطلاق دلائل سییہ تشبہ ہر حال میںحرام ہے خواہ اس کا قصد ہو یانہ ہواور علاوہ تشبہ کے منع پر اور دلائل بھی قائم ہیں (کما سیاتی فی الجواب الآتی) اور امرِ ثانی کا بیان یہ ہے کہ اولاً راوی نے اپنا مشاہدہ بیان نہیں کیا اور گو راوی حضرت عائشہ رضی لالہ عنہ کے محرم ہیں مگر نہ الفاظ حدیث شمول لعائشۃ میں نصل ہے نہ راوی دوسری ازواج کے محرم ہیں کہ شعور کا مشاہدہ کیا ہو نہ کسی صاحب مشاہدہ کا نام لیتے ہیں۔ نہ صاحب مشاہدہ کا ثقہ غیر ثقہ ہونا معلوم نہ یہ معلوم کہ اس نے تحقیق سے کہا ہے یا تخمیں سے ۔ بعض اوقات عورتیں بالوں کو ایسا متداخل کر لیتی ہیں کہ دیکھنے والئے کو شبہ تخفیف شعور کا ہوتا ہے۔ ثانیاً وفرہ بقول اصمعی لہ سے اشبع ہے اورلمہ وہ ہے جو منکبین سے لگتا ہو ۔(نقلہ النووی) پس وفرہ منکبین سے بھی نیچے ہوا۔ پھر ان شعور کو  وفرہ نہیں کہاگیا کالوفرۃ یعنی مشابہ وفرہ کے کہا گیا تو اس میں یہ بھی احتمال ہوگیا کہ وفرہ سے بھی نیچے ہوں بلکہ غور کرنے سے یہی احتمال راجح بلکہ مثل متعین کے ہے کیونکہ اگر وفرہ سے کم ہوتے تو اس کے لئے لغت موضوع ہے مثلاً لمہ تو لمہ سے تعبیر کی اجااتا کالوفرۃ کہنے کی کیا ضرورت تھی اور وفرہ سے زائد کے لئے کوئی لغت نہیں اس لئے اس کو کالوفرۃ سے تعبیر کیاگیا اور اس حالت میں اس میں یقینا ذوائب وقرون بن سکتے ہیںغایب ما فی الباب اور عورتوں کے قرون وذوائب سے اس میں قدرے کمی اور تخفیف ہو گی تو حدیث کا مدلول نفی قرون نہیںہوا بلکہ تخفیف شعور ہو چنانچہ نووی نے کہا ہے فیہ دلیل علی جواز تخفیف الشعور للنساء اور غرض اس تخفیف سے ترک شعور زینت تھی۔ کما قال النووی عن عرباض ولعل ازواج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فعلن ھذا بعد وفاتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لترکھن التزین الخ اور اس تخفیف کو اخذ کہنا صحیح اور شعور کو من رؤسھن کہنا صحیح ہے ثالثاً اس سے قطع نظر علی سبیل التنزل ممکن ہے کہ اس زمانہ میں یہ وضع رجال ونساء کے درمیان مشترک ہو۔ پس کجا یہ وضع خبیث اورکجا صنیع ازواج مطہرات   ؎
کار پاکاں را قیاس از خود مگیر

گرچہ ماند در نوشتن شیر وشیر
معجزہ را باسحر کردہ قیاس

ہر دو رابر مکر بنہادہ اساس 
اطلاع:
	 کان ھذا الجواب المذکور کتب اولا فی ثانی رمضان بعبارۃ اخری ثم یدل فی عاشر شوال بھٰذہ العبارۃ نتصیلا تسہیلا فقط
اس کے بعد ایک اور صاحب کا خط اسی کے متعلق آیا جو مع جواب ذیل منقول ہے
سوالـ:
	 مجھے ذاتی طور پر حالاتِ حاضرہ کے مسئال کے متعلق جناب  کی کتب اور خیالات سے کافی طور پر واقفیت حاص ہے اور پوری 
Flag Counter