Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

318 - 756
رد المحتار قبیل سجدۃ التلاوۃ فالصلوۃ المکتوبۃ علی المرکب الھرائی لا تجو بدون العذر کما ھو حکم الصلوۃ علی الدابۃ والسفینۃ السائرۃ وھل یلزم التوجہ الی القبلۃ ھٰھنا کما فی السفینۃ اولا کما فی الدابۃ والظاہر انہ یلزم لان المرکب الھرائی بمنزلۃ لابیت کالسفینۃ فان لم یمکنہ یمکث عن الصلوۃ الا اذا خاف فوت الوقت لما تقرر من ان قبلۃ العاجز جہۃ قدرتہ (وما من حادثۃ الا ولھا ذکر فی کتاب من الکتب المعتبرۃ اما بعینھا او بذخر قاعدۃ کلیۃ تشتملھا واللہ تعالیٰ اعلم ۔ 
پچانئے ویں حکمت 
در تحقیق مضمون تظلیل غمام 
	حدیث ذیل متعلق بعدم الظل لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہوا تو فرمایا کہ صاحب مواہب لدینہ کو یہ حدیث نہیں ملی۔ کما فھم من استدلالہ بحدیث واجلعنی نورا اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ بناء علی المشہور اگر حدیث ثابتبھی ہو تو مراد یہ ہوگیء کہ ابر آپ کے ساتھ گاہے گاہے رہتا تھا کما ورد فی قصۃ بحیر الراھب ونسطوراالراھب ذکر الاول فی الخصائص الکبری صفحہ ۸۳جلد۱ بتحسین الترمذی وتصحیح الحاکم والثانی فی تاریخ جلیب الہصفحہ ۱۶ بغیر سند اور گاہے گاہے کی قید اس لئے لگائی کہ صحیح حدیث میں وارد ہے وقد اخرجہ مسلم۔ کہ آپ پر ایک بار ایک صحابیؓ کپڑا روکے ہوئے کھڑے تھے گرمی کی وجہ سے تاکہ آپ پر سایہ ہو جائے پس معلوم ہوا کہ علی الدوام سایہ نہیں رہتا سو سایہ کا نہ ہونا اس وقت کے ساتھ خاص ہوگا جبکہ ابرِ سر مبارک پر پو لیکن اس حدیث سے اس گمان کی تغلیط ہوئی کیونکہ ابر شمس کی گرمی رکھنے کے لئے ہوتا قمر میں جس جس کا ذکر حدیث ذیل میں ہے ۔ کون سی گرمی تھی جس کے لئے ابر کی حاجت ہوتی وہ حدیث خصائص کبری صفحہ ۶۸ جلد۱ مطبوع حیدر آباد میں ہے اور اس کے لفظ یہ ہیں۔ اخرج الحکیم الترمذی (وھو محمد بن علی من الاولیاء الاکبار المحدثین والحکماء لامتصوفین افاض الاللّٰہلہ علی من برکات انفاسہ القدسیہ (جامع ) عن ذکوان( مگر چونکہ اس تحریر کے بعد معلوم ہوا کہ یہ حدیث نہایت ضعیف اور نیز مرسل ہے کیونکہ اس کی اسنا خصائص الکبری صفحہ ؟؟؟مختصراً اس طرح لکھی ہے اخرج؟؟؟؟؟؟من طریق عبد الرحمن بن قیس الزعفرانی ن عبد الملک بن عبد اللّٰہ بن الولید عن ذکوان فذکرہ اور ذکوان آزاد شدہ غلام حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالی عنہا کے تابعی ہیں اور عبد الرحمن کو بعضوں نے وضع حدیث اور بعضوں نے کذب کی طرف منسوب کیا ہے جیسا کہ  میزان اور تہذیب التہذیب میں ہے لہذا اس پر کسی امر کا مدار صحیحح نہیں ہو سکتا ہاں کسی صحیح طریق پر ثابت ہونے کے بعد تقریر مذکور کی حاجت ہوگی۔ ۱۲جامع)   ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یکن یر لہ ظل فی شمس ولا قمر۔
خط مولوی محمد اسحق بردوانی :
	 الامداد ماہ ربیع الثانی  ۳۶ھ صفحہ ۳۰ کے مضمون عدم الظل التظلیل انضمام کے متعلق عرض ہے سید احمد دحلان رحمہ اللّٰہ نے السیرۃ النبویہ والآثار المحمدیہ صفحہ ۱۹۳ میں حدیث ہجرت کے اس جملہ کے تحت میں (حتی اصابت الشمس رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ 
Flag Counter