Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

316 - 756
	(بعد بیان شفاعت بالوجاہت وشفاعت بالمحبۃ ) تسیری صورت یہ ہے کہ چور پر چوری ثابت ہو گئی مگر وہ ہمیشہ کا چور نہیں اور چوری کو اس نے کچھ پیشہ نہیں ٹھہرایا مگر نفس کی شامت سے قصور ہوگیا اس پر شرمندہ ہے اور رات دن ڈرتا ہے اور بادشہ کے آئین کو سر آنکھوں پر رکھ کر اپنے تئیں تقصیر وار سمجھتا ہے اور لائق سزا کے جانتا ہے اور بادشاہ سے بھاگ کر کسی امیر وزیر کی پناہ نہیں ڈھونڈتا اور اس کے متعلق کسی کی حمایت نہیں چاہتا اوررات دن اس کا منہ دیکھ رہا ہے کہ دیکھئے میرے حق میں کیا حکم فرمائے سو اس کا یہ حال دیکھ کر دل میں ترس آتاہے مگر آئین بادشاہت کا خیال کر کے بے سبب در گزر نہیں کرتا کہ کہیں لوگوں کے دلوں میں اس کے آئین کی قدر نہ گھٹ جائے سو کوئی امیر ووزیر اس کی مرضی پاکر اس تقصیر وار کی شفاعت کرتا ہے اور بادشہ اس امیر کی عزت بڑھانے کو ظاہر میں اسکی سفارش کا نام کر کے اس چور کی تقصیر معاف کر دیتا ہے سو اس افسر نے چور کی سفاعش اسلئے نہیںکی کہ اسکا قرابتی ہے یا آشنا یا اس کی حمایت اس نے اٹھائی بلکہ محض بادشاہ کی مرضی سمجھ کر کیونکہ وہ تو بادشہ کا امیر ہے نہ کہ چوروں کا تھانگی۔ جو چوروں کا حمایتی بن کر اس کی سفارش کرتا اور آپ بھی چو ہوجاتا ۔ اور اس کو شفاعت بالاذن کہتے ہیں۔ پس سفارش خود اس مالک کی پروانی سے ہوتی ہے سو اللہ کی جناب  میں اس قسم کی شفاعت ہو سکتی ہے اور جس ولی ونبی کی شفاعت کا قرآن وحدیث میں مذکور ہے اس کے معنی یہی ہیں سو ہر بندے کو ہر چاہئے کہ وہ ہر دم اللہ ہی کو پکارے اور اس سے ڈرتا رہے اور اس سے التجا کرتا رہے اور اس کے رو برو اپنے گناہوں کا قائل رہے اور اس کو اپنا مالک بھی سمجھے اور حمایتی بھی اور جہاں تک خیال دوڑائے اللہ کے سوا کہیں اپنا بچاؤ نہ جانے اور کسی کی حمایت پر بھروسہ نہ کرے کیونکہ وہ بڑا غفور ورحیم ہے سب مشکلیں اپنی ہی فیض سے کھو ل دے گا اور سب گناہ اپنی ہی رحمت سے بخش دے گا اور جس کو چاہے اپنے حکم سے آپ کا شفیع بنا دے گا غرضیکہ جیسی ہی حاجت ہو اسی کو سوننپنا چاہئے اسی طرح شفاعت بھی اسی کے اختیار پر چھوڑ دے جس کو وہ چاہے ہمارا شفیع کر دے نہ یہ کہ کسی کی حمایت پر بھروسہ رکھے اور اس کو اپنی کے واسطے پکارے اور حمایتی سمجھ کر اصل مالک کو بھولجائے۔ 
اعتراض : 	اس مضمون پر نگاہ دوڑا نے سے مندرجۂ ذیل نتائج بڑی آسانی سیمرتب کیے جا سکتے ہیں (۱) شفاعت وجاہت پر عقیدہ رکھنا اصل شرک ہے (۲) شفاعت محبت پر ایمان لانا شرک اکبرہے۔ (۳)ہمیں کسی ایک کی شفاعت پر بھی بھروسہ نہ رکھنا چاہئے۔ (۴)کوئی نبی یا ولی کسی گنہگار کی شفاعت اس لئے نہیں کرے گا کہ اسے بوجہ نبی رحمت ہونے کے اس پر ترس آتا ہے یا لسبب ہمدردی بنی نوع انسان رحم کیونکہ ایسا کرنے پر وہ مجرم کا حامی مدد گار ہوکر خود مجرم قرار دیا جائے گا۔ (۵) خدا کسی گنہگار کو بھی بدون شفاعت نہیں بخشے گا کیونکہ ایسا کرنے سے اس ے اس بات کا ڈر ہوگا کہ کہیں لوگوں کے دلوں سے اس کے آئین قوانین کی قدر نہ گھٹ جائے۔ (۶) مرتبہ شفاعت میں کوئی حقیقی فضیلت وبزرگی نہیں کیونکہ شفاعت تو قوانین الٰہیہ کی عظمِ شان برقرار رکھنے کے لئے ایک ذریعہ ہے نہ کہ حقیقی عزت افزائی کا نشان 
الجواب:
 	میری رائے میں اس مسئلہ کو کسی محقق سے زبانی منقح کرنے کی ضرورت ہے بہ خصوص صفحہ ۷ میں ۱۵و۱۶(جس میں عبارت مذکور ہے یہ حال دیکھ کر دل میں ترس آتا ہے۔ الی قولی اللہ کی جناب  میں اس قسم کی شفاعت ہو سکتی ہے اور جو سوال ذٰل میں مذکور ہے۱۲) سب سے زیادہ قابلِ تحقیقی ہے کہ اس جزو کو بعینہ وجہ تشبیہ میں دخل نہیں ہے صرف مشبہ بہ کی جانب ہیں اس شفاعت کے تحقیق کی ایک صورت ہے جس کا تحقق بعینہ جانب مشبہ میں ضروری نہیں صرف قید بالاذان تشبیہ ہے گو بنا اذان کی کی مختلف ہے ایک جگہ بناء غرض ہے ایک جگہ حکمت اگر اس جزو ھ لیا جائے تو امید ہے کہ سب اشکالات ختم ہو جائیں ۔ واللہ الھادی الی سواء السبیل تاریخ ۲۸ ربیع الثانی  ۱۳۴۷؁ھ

Flag Counter