Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

314 - 756
کے پڑھنے افضل ہوگا۔ رہا حکمت تذکیر سے استدلال یہ تو قرآن میںبھی جاری ہے بلکہ قرآن مجید میں خطبہ کا لقب تو ذکر آیا ہے اور قرآن کا ذکریٰ تو کیا یہ حکم اس حکم میں بھی جاری ہوگا۔۱۴ ربیع الاول  ۱۳۴۷؁ھ
اس کے بعد سائل بالا سے حسبِ ذیل مکاتبت ہوئی
سوال:
	 حضور والا نے تحریر فرمایا ہے کہ عجز وعدم عجز عن القراء ۃ مراد ہے نہ کہ عن الفہم ۔ صرف اتنی بات میں مجھے شبہ باقی رہ گیا ہے اس لئے مؤدبانہ طور پر چند جملے عرض کرنے کی جرأت کرتا ہوں۔ تحقیق الخطبہ میں امام رافعی رحمہ اللہ (شافعی المذہب) کی حسبِ ذیل عبارت نقل فرمائی گئی ہے ھل یشترط کون الخطبۃ کلھا بالعربیۃ وجہان الصحیح اشتراط فان لم یکن فیہم من یحسن العربیۃ خطب بغیرہا ویجب علیہم التعلم الا عصوا ولا جمعۃ لہم (منقول من شرح الاحیاء للسید المرتضیٰ الزبیدی ج۳)
الجوابـ:
	اس عبارت کے معنی اول عرض کرتا ہوں اسس سے آپ کو اپنے استدلال کا حال معلوم ہو جائے گا کہ صحیح یہی ہے کہ عربیہ شرط ہے لیکن اگر ان حاضرین جمعہ میں کوئی ایسا شخص نہ ہو جو عربی پڑھ سکے تو فی الحال غیر عربیہ میں پڑھ لئے لیکن آئندہ کے لئے ان لوگوں پر واجب (علی الکفایۃ) ہوگا کہ عربی سیکھیں تاکہ عربی میں خطبہ ہو سکے ورنہ سب عاصی ہوں گے اوران کا جمعہ بھی صحیح نہ ہوگا جیسا بعض فقہاء حنفیہ نے بعینہ اسی طرح تجوید کے متعلق فتویٰ دیا ہے کہ جب سیکھنا چھوڑ دے گا نماز صحیح نہ ہوگی اور اگر عربی نہ سمجھنا مراد ہوتو کیا اس فتئے کو بھی مانا جائے گا کہ عربی نہ سمجھنے والوں پر عربی کا سیکھنا واجب ہے ورنہ ان کا جمعہ نہ ہوگا۔ اگر یہ فتویٰ مانا جاتا ہے تو اس سے آپ کے خلاف دعا ثابت ہے۔۳ربیع الثانی ۱۳۴۷؁ھ
سوال تتمہ بالا:
	رہا کلام مجید کے متعلق کہ اس کو ذکریٰ کہا گیا ہے اور خطبہ کو ذکر اس کے متعلق یہ عرض ہے کہ قرآن مجید کو بھی ذکر کہا گیا ہے جیسا کہ وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ۔ معلوم ہوا کہ ذکر کے لئے تبیین کی ضرورت ہے اسی طرح اگر خطبہ کو ذکر کہا گیا ہے تو اس کے لئے بھی تبیین کی ضرورت ہے بہر صورت ذکری ٰاور ذکر ارتفاع نہیں ہے بلکہ اجترماع ہے ورثۃ الانبیاء پر جس طرح قرآن کی تبیین عائد ہے اسی طرح خطبہ کی بھی اور تبیین مفہوم لغت ہی میں ممکن ہے، ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا فرمایا گیا ہے ذکرنا سے مراد انزلنا الیک الذکر کے مطابق کلام مجید ہی ہے اس لئے فاسئلو ا اھل الذکر ای عالم القرآن فرمایا ہے ۔پس جب خطبہ بھی ملقب بہ ذکر اللہ ہے تو اس کو بھی مبین للناس ہونا ضروری ہے ۔ اس سے واضح ہوا کہ خطیب ذکر (قرآن ہی سے نصائح کرے ورنہ خطبہ ذکر نہ ہوگا۔ 
جواب:
	 میرا یہ مطلب نہ تھا کہ قرآن کو ذکر نہیں کہاگیا بلکہ یہ مطلب تھا کہ ذکریٰ بھی کہا گیا ہے اور خطبہ کو کہیں ذکریٰ نہیںکہا گیا پس قرآن میں جب دونوں صفتیں ہیں تو ان دونوں کا حق ادا کرنا ضروری ہے تو پھر ترجمہ سمجھ کر کیوں نہیں پڑھاجاتا۔ 

Flag Counter